’لوگ مرنے کے بعد دفنائے جاتے ہیں مگر ہم زندہ دفن ہو گئے ہیں اور اب موت کا انتظار کرنا ہے۔‘
یہ الفاظ اس دھماکے اور پھر مچنے والے شوروغوغا، چیخوں، کھانسنے اور کان پھاڑتی ’ہیلپ‘ کی آوازوں کے تھمنے کے تھوڑی دیر بعد ابھرے تو سننے والوں کو اندازہ ہوا کہ وہ فورمین لوئس ارزوا کی آواز ہے جس کے فوراً بعد ہی وہی آواز دوبارہ ابھری کہ ’لیکن ضروری نہیں ایسا ہو۔‘ شاید انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مایوسی کی بات کر گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ایک اور کان کن نے لرزتی آواز میں کہا کہ ’لگتا ہے میں اپنے بچے سے ملے بغیر ہی دنیا سے چلا جاؤں گا کیونکہ اس کے آنے میں ابھی چند دن باقی ہیں۔‘
مزید پڑھیں
اس پر سناٹا چھایا تو ضرور مگر جلد ہی ’جو مرضی ہو جائے مرنا نہیں ہے‘ کی صدا کے ساتھ ٹوٹ گیا۔ جو ایک اور کان کن نے لگائی تھی۔
سنہ 2010 میں جنوبی امریکہ کے ملک چِلی کی اس کان میں کیا ہوا جو کسی اناکونڈا کی طرح اپنے اندر کام کرنے والے مزدوروں کو نگل تو گئی تھی مگر ہضم نہ کر پائی۔ وہ زندہ تھے اور زندہ رہنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا اور سب سے بڑی بات کہ کان کنوں کا کیا بنا؟ ویب سائٹ بریٹانیکا ڈاٹ کام پر اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ دی گئی ہے۔
یہ ایک ناقابل یقین واقعہ ہے جو اگست 2010 میں پیش آیا اور 69 روز تک پھیلا۔ اس دوران چلی سمیت پوری دنیا دم سادھے بیٹھی تھی۔ میڈیا خبریں پہ خبریں دے رہا تھا۔ اس زمین پر کان کنوں کے خاندان والوں کی سانسیں گھٹ رہی تھیں جس کے ڈھائی ہزار فٹ نیچے ان کے پیارے سانس لے رہے تھے ان میں خواتین اور بچے بھی تھے اور ملک کے صدر سیباستن پنیرا سمیت اعلٰی حکومتی حکام بھی، ان کے کپڑے اور چہرے ایک دوسرے سے الگ تھے مگر تفکر کی لکیریں ایک سی بلکہ کسی سوالیہ نشان سے مشابہہ تھیں۔
ہوا کیا تھا؟
چلی کے قصبے کوپیاپو سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تانبے کی کان سان جوز میں دوپہر دو بجے کے قریب ایک بہت بڑی دھمک سنی گئی اور اس کے بعد پتھر اور مٹی کے بڑے بڑے تودے کان کے دہانے پر آن گرے جبکہ کان کا بڑا حصہ بھی بیٹھ گیا جس سے دہانہ بند ہو گیا تاہم جس مقام پر کان کن کام کر رہے تھے وہ نہیں گرا۔ اس وقت 33 کان کن اس کے اندر تھے جن میں سے 32 چِلین اور ایک بوویلین تھا۔
وہ سطح زمین سے دو ہزار چھ سو 25 (800 میٹر) نیچے پھنس چکے تھے۔
مقامی انتظامیہ کی تگ و دو
واقعے کے فوراً بعد اگرچہ مقامی انتظامیہ حرکت میں آ گئی تاہم اس کے پاس وسائل کی کمی ہونے کے باعث رات گئے تک کچھ نہ ہو سکا کیونکہ کان کے دہانے پر گرنے والا ملبہ بہت زیادہ تھا اور کان کن بہت زیادہ گہرائی میں تھے جبکہ یہ خدشہ بھی تھا کہ اندر موجود کان کنوں میں سے کچھ ہلاک بھی ہوئے ہوں گے۔
مقامی انتظامیہ سے حادثے کی خبر دارالحکومت میں بیٹھے حکام تک پہنچی اور ریاست کی مائننگ کمپنی کوڈیلکو کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ ریسکیو کے کام میں مقامی انتظامیہ کی مدد کرے۔
اس کے بعد کمپنی اپنی ہیوی مشینری کے ساتھ موقع پر پہنچی اور کھدائی کا کام شروع کر دیا۔
ایک اور سانحہ
سات اگست کو اس وقت صورت حال مزید خوفناک رخ اختیار کر گئی جب کان کا کچھ مزید حصہ بھی منہدم ہو گیا اور ہوا کے گزر کی وہ درزیں بھی بند ہو گئیں جن کے بارے میں حکام کو امید تھی کہ ان کی بدولت مزدور سانس لے پا رہے ہوں گے۔
اس کے بعد کام کی نوعیت تبدیل کی گئی اور ساری توجہ اس جانب مرکوز کی گئی کہ کسی طرح سوراخ کیے جائیں تاکہ مزدوروں تک آکسیجن کی رسائی ہو سکے اور اس کے ذریعے رابطے کے آلات اندر پہنچائے جائیں۔
اس کے لیے کان کے نقشے نکالے گئے جن کی مناسبت سے ڈرلنگ کی جاتی رہی مگر نقشے پرانے ہونے اور کان کو مزید پھیلائے جانے کے باعث درست مقام کی نشاندہی نہیں رہی تھی کہ دراصل مزدور کہاں پر پھنسے ہیں۔
یہ بہت کٹھن شب و روز تھے مگر گزرتے گئے اور بات پہنچی 22 اگست تک، جب ڈرلنگ کے ذریعے کچھ آلات اس ریکارڈ روم تک پہنچائے گئے جہاں کسی بھی ہنگامی صورت میں پیغام ریکارڈ کرایا جا سکتا تھا۔
اس موہوم سے اور پیچیدہ ریکارڈ کو لفظی شکل دی گئی تو کچھ یوں عبارت ابھری ’ہم 33 افراد ہیں اور سبھی ٹھیک ہیں۔‘
اس کے بعد بھی یہ خدشات تھے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ پیغام پہلے ریکارڈ کرایا گیا ہو اور اب تک ہلاکتیں ہو چکی ہوں مزید تحقیقات کے لیے چھوٹی چھوٹی ویڈیو ریکارڈ کرنے والی ڈیوائسز کو سوراخوں کے ذریعے کان کے مختلف حصوں میں پہنچایا گیا تاہم زیادہ تر مناظر اندھیرے کے تھے۔ صرف ایک نسبتاً دکھائی دینے والی ویڈیو اور آوازوں سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ سبھی زندہ ہیں۔
اس سے اس بات کی بھی تصدیق ہو گئی کہ وہ تقریباً ڈھائی ہزار فٹ کی گہرائی میں ہیں۔
زمین کے نیچے کیا ہو رہا تھا؟
وہاں عجیب و غریب منظر تھا۔ 17 روز تک کان کن گُھپ اندھیرے میں رہے اور اپنے ہیلمٹ میں لگے لائٹس کی بدولت ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے۔ جب تک وہ ایک دوسرے سے دور رہے پریشان رہے تاہم اکٹھے ہوئے تو حوصلہ بندھا۔ وہاں آکسیجن کی بھی کمی تھی جس کے لیے ہال میں موجود سلینڈرز کی مدد لی گئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ انہیں احساس ہوا کہ زندہ رہنے کے لیے کچھ کھانا پینا بھی ضروری ہے اس لیے کان کے اس حصے کا جائزہ لیا گیا جہاں مزدوروں کے لیے راشن وغیرہ رکھا جاتا تھا وہ ایک دو یا چند روز کے لیے ہوتا تھا۔ اس لیے ملا تو سہی لیکن بہت کم مقدار میں، اس لیے وہ کھاتے رہے مگر بہت کم۔ اسی طرح پانی ختم ہو جانے کے بعد کان سے گزرتی نالیوں کے علاوہ ریڈی ایٹرز کا پانی نکال کر پیا جاتا رہا۔
اس دوران فورمین لوئس ارزوا ان کی قیادت کرتے رہے اور انہیں امید تھی کہ زمین کے اوپر کچھ نہ کچھ ہلچل تو ہو گی اور شاید مدد پہنچ جائے۔
آلودہ پانی اور ماحول میں بہت زیادہ نمی کی وجہ سے کئی مزدور بیمار پڑ گئے اور کم کھانے کے باعث کمزور بھی، کئی کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا شروع ہوا۔
خوراک پہنچانے کا انتظام
23 اگست کو مقام کی نشاندہی ہو جانے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے نیچے کھانا وغیرہ پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ سوراخ کر کے پائپ اس مقام تک پہنچائے جہاں مزدور موجود تھے۔ پائپس کے ذریعے مائع شکل میں خوراک اور پانی کی سپلائی شروع کی گئی جس سے زیرزمین موجود کان کنوں کو امید پیدا ہوئی کہ اوپر ان کو بچانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
بعدازاں سوراخوں کو بڑا کیا گیا اور نارمل حالت میں خوراک کا سامان پہنچایا جانے لگا۔
زمین کے اوپر کا منظر
دنیا بھر کا میڈیا وہاں پہنچ چکا تھا۔ پھنسے کان کنوں کے رشتہ دار مختلف ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے تھے۔ انتظامی مشینری کام کر رہی تھی۔ امید تھی لیکن ناامیدی کے بادل بھی منڈلا رہے تھے۔
ناسا کی ٹیم کی آمد
حکومت کی جانب سے امریکہ کے خلائی ادارے ناسا سے رابطہ کیا اور اس کی ٹیم بھی سائٹ پر پہنچی۔ اس کی جانب سے ایک کیسپول لفٹ قسم کا آلہ بھی فراہم کیا گیا جو خلائی مشنز کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔
تاریخ پہ تاریخ
یہ عدالتی تاریخ نہیں تھی بلکہ وہ تھی جس کے بارے میں مختلف خیالات سامنے آتے کہ تب تک ریسکیو آپریشن مکمل ہو جائے گا لیکن وہ گزرتی رہیں جو کہ زمین سے نیچے موجود مزدوروں اور ان کے رشتہ داروں کے لیے صدیوں سے کم نہ تھیں۔
ریسکیو آپریشن کا حتمی مرحلہ
چھوٹے سوراخوں کے بعد اب تین مقامات پر بڑے دہانوں کی ڈرلنگ شروع کی گئی اور دہانوں کو مزید کھلا کرنے پر بھی کام جاری رہا۔
اس کے لیے امریکہ اور کینیڈا کی مشہور ڈرلنگ کمپنیز سے مشینیں منگوائی گئی تھیں۔
پہلے بڑے دہانے کو پلان اے کا نام دیا گیا جس نے 30 اگست کو کام شروع کیا۔
اس کے بعد پانچ ستمبر کو پلان بی پر کام شروع ہوا اور یہ سوراخ اے سے کچھ دوری پر تھا۔
اسی طرح پلان سی، جس کے لیے آئل ڈرل استعمال کی گئی، 19 ستمبر کو شروع کی گئی۔
اس دوران کان کنوں تک ایسی ڈیوائسز بھی کامیابی سے پہنچائی جا چکی تھیں جن کے ذریعے وہ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کر سکتے تھے۔
19 ستمبر کو تینوں میں سے ایک بڑا سوراخ عین اس مقام پر نکلا جہاں مزدور موجود تھے اور اس کے ذریعے ایک کپسول لفٹ نیچے اتارنے کی کوشش کی گئی۔ جس کی چوڑائی اتنی تھی کہ اس میں ایک آدمی کھڑا ہو سکتا تھا جبکہ وہ آہنی رسی کے ذریعے کرین کے ساتھ منسلک تھی۔
ڈرلنگ کے باعث اس مقام پر بہت بڑی مقدار میں ملبہ بھی گرا جہاں مزدور پھنسے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے بڑی محنت کے بعد اس کو ہٹایا اور کیپسول لفٹ نیچے تک جانے میں کامیاب ہوئی۔