کیا پاکستان میں خواتین کے میک اپ کا سامان مزید مہنگا ہو رہا ہے؟
کیا پاکستان میں خواتین کے میک اپ کا سامان مزید مہنگا ہو رہا ہے؟
جمعہ 13 اکتوبر 2023 22:05
زین علی -اردو نیوز، کراچی
محکمہ کسٹمز کے مطابق ’میک اپ کے 13 آئٹمز کی ڈیوٹیز میں تبدیلی کی گئی ہے‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
محکمہ کسٹمز کی جانب سے خواتین کے میک اپ کی 13 اشیا کی قیمتوں کا دوبارہ تعین (ریویلیوایشن) کرکے ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کسٹمز حکام کے مطابق مارکیٹ سروے اور تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بیرون ملک سے برانڈڈ میک اپ درآمد کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ’درآمد ڈیوٹی میں اضافے کے بعد ملک میں امپورٹڈ میک اپ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔‘
ان کے مطابق ’ڈالر کی قیمت میں کمی ہونے پر امید تھی کہ کاسمیٹکس کی قیمت میں بھی کمی ہوگی لیکن ڈیوٹی بڑھنے کے بعد قیمتوں میں کمی ممکن نہیں ہے۔‘
معروف ماڈل، اداکارہ اور بیوٹیشن نادیہ حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں میک اپ کا سامان نہیں بنتا۔ یہاں کام کرنے والے بیوٹیشنز میک اپ کا سامان بیرون ملک سے ہی درآمد کرتے ہیں۔‘
’ان کے پارلرز میں استمعال ہونے والی مصنوعات برانڈڈ ہیں اور بیرونی ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہر ماہ دو ماہ میں سامان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ایسے میں اگر میک اپ کا سامان پاکستان منگوانے پر ڈیوٹی مزید بڑھے گی تو یہ ہمارے لیے نقصان دہ ہوگا۔‘
نادیہ حسین کا کہنا تھا کہ ’میں خود ایک برانڈ کی مالک ہوں، ہمیں سامان باہر سے منگوانا پڑتا ہے، اب اگر ڈیوٹی بڑھے گی تو ہمیں سامان بھی مہنگا پڑے گا، مہنگا سامان خریدنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ اسے نقصان میں فروخت کریں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کاسمیٹکس کے سامان کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ہمارا کام متاثر ہو رہا ہے۔ اچھے میک اپ آرٹسٹ برانڈڈ میک اپ ہی استعمال کرتے ہیں، کیونکہ جلد کے معاملے پر کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔‘
کون کون سی اشیا کی ڈیوٹی ریوائز کی گئی ہیں؟
محکمہ کسٹمز کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق 13 اشیا کی ڈیوٹیز میں تبدیلی کی گئی ہے جن میں تین اقسام کی سُرخیاں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آنکھوں پر لگانے والے مختلف کلرز، شائنر، مسکارا، کاجل، مصنوعی پلکیں، ناخن کلر، ناخن کلر ہٹانے والا کیمیکل، پاؤڈر، ٹی وی سٹک اور پریمیئر سمیت دیگر اشیا شامل ہیں۔ میک اپ کے سامان کا شمار لگژری آئٹمز میں ہوتا ہے
کاسمیٹک امپورٹر عامر اقبال زم زم کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کاسمیٹک آئٹمز کو لگژری اشیا کی کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس شعبے کی اشیا کی درآمد مشکل ہوگئی ہے اور اس پر ڈیوٹی بھی زیادہ ہوگئی ہے۔
’اس وقت میک اپ کے سامان کو درآمد کرنے پر 130 سے 137 فیصد تک ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے جو درآمدکنندگان کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ اس سے قبل یہ ڈیوٹی 130 فیصد تک تھی۔
عامر اقبال زم زم کے مطابق ’محکمہ کسٹمز ایک فارمولے کے تحت ان اشیا پر ڈیوٹی عائد کرتا ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامان کس ملک سے درآمد کیا جا رہا ہے۔‘
’پھر اس ملک کی کرنسی کے حساب سے اس کی وہاں کی قدر دیکھی جاتی ہے اور پھر پاکستان میں ویلیوایشن کی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بناؤ سنگھار کے سامان کی قیمتوں میں اضافے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب تک جاری ہے۔
عامر اقبال زم زم کا کہنا ہے کہ’ڈالر کی قیمت میں کمی سے ایک امید تھی کہ شاید آنے والے دنوں میں سامان سستا ہوگا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ امپورٹڈ سامان کی ڈیوٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر امپورٹڈ سامان کی ڈیوٹی میں اضافہ ہوتا ہے تو پھر سامان سستا ہونے کے بجائے مزید مہنگا ہو جائے گا۔‘ پاکستان میں میک اپ کا سامان کن ممالک سے زیادہ منگوایا جاتا ہے؟
عامر اقبال کے مطابق ’پاکستان میں میک اپ کا زیادہ تر سامان چین، انڈیا، امریکہ اور یورپ سے درآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں امریکہ اور یورپ سے درآمد کی جانے والی اشیا کی طلب زیادہ ہے۔‘ پاکستان پہنچنے پر اشیا کی قیمت کتنی ہو جاتی ہے؟
عامر اقبال کا کہنا ہے کہ ’مثال کے طور پر ایک ڈالر کی خریدی گئی چیز پاکستان پہنچنے کے بعد 130 فیصد ڈیوٹی ادا کرتی ہے، اس کے بعد ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ ہے، دکان تک پہنچنا اور پھر صارف تک جانا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک اندازے کے مطابق ایک ڈالر کی خریدی گئی چیز خریدار کو تقریباً 3 ڈالر میں پڑتی ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان میں ڈالر کی کمی کے باعث حکومتِ پاکستان کی جانب سے امپورٹڈ اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
بعدازاں حکومت نے صرف ضروری استعمال کی اشیا درآمد کرنے کی اجازت دی تھی، تاہم آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے حصول میں پاکستان کو کئی مشکل فیصلے کرنا پڑے تھے جن میں سے ایک درآمدی اشیا پر عائد پابندی کو ختم کرنا بھی تھا۔
اس بندش کے بعد ملکی سطح پر کھانے پینے کی اشیا سمیت دیگر اشیا کی درآمد کا سلسلہ جزوی طور پر بحال ہوا ہے۔
البتہ اب بھی امپورٹرز کو شکایت ہے کہ انہیں لیٹر آف کریڈٹ ( ایل سی) کھولنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب سٹیٹ بینک آف پاکستان امپورٹرز کے موقف کو درست نہیں سمجھتا۔ ترجمان مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ ’سٹیٹ بینک نے واضح طور پر ہدایات جاری کی ہیں کہ امپورٹرز مارکیٹ سے ڈالر لے کر نجی بینکوں میں ایل سی کُھلوا سکتے ہیں۔‘