سرمایہ کاروں کو بلوچستان میں بم پھوڑے جانے سے کوئی مسئلہ نہیں، نگراں وزیر اطلاعات
سرمایہ کاروں کو بلوچستان میں بم پھوڑے جانے سے کوئی مسئلہ نہیں، نگراں وزیر اطلاعات
منگل 19 ستمبر 2023 12:53
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں کو اس بات سے کوئی مسئلہ نہیں کہ بلوچستان میں بم پھوڑے جا رہے ہیں بلکہ قوانین اور حکومتی نظام میں خامیوں اور رکاوٹوں سے مسئلہ ہے۔
اردو نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں نگراں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ بلوچستان میں سالانہ 60 ارب روپے کا ایرانی تیل کا غیر قانونی کاروبار ہوتا ہے، ایرانی تیل فی لیٹر اگر 300 روپے میں بکتا ہے تو اس میں سے 180 روپے مافیا کو جاتے ہیں جو کوئی ٹیکس نہیں ادا کرتا۔
’سمگلنگ مافیا نے بہت بڑا نیٹ ورک بنایا ہے۔ لازمی بات ہے مافیا اکیلے کام نہیں کرسکتی۔ انہوں نے حکومت میں بھی کسی کو ملایا ہوگا، کسی سیاستدان اور بیورو کریٹ کو بھی ملایا ہوگا تو جہاں بھی کسی کے تانے بانے ملتے ہیں ہم اقدام اٹھائیں گے۔‘
بلوچستان پاکستان کا معاشی گیٹ وے
ان کا کہنا تھا کہ ایرانی تیل پاکستانی معیشت کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے، اس کا بڑا حصہ مافیا کی جیب میں جاتا ہے جو ٹیکس نہیں دیتا۔
’بلوچستان پاکستان کا معاشی گیٹ وے بننے جا رہا ہے۔ بلوچستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں 2.5 ارب ڈالر سرماریہ کی پیشکش ہوئی ہے جسے جلد ہم قابل عمل بنائیں گے۔ آئی ٹی بلوچستان کا ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہوگا۔ آئی ٹی پارکس اور ای کامروس کو پورے صوبے میں پھیلائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ریکوڈک سمیت مختلف شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری آ رہی ہے، تیل کی ریفائنری کے منصوبے پر بھی کافی حد تک کام ہوچکا ہے صرف جگہ کا تعین ہونا باقی ہے وہ بھی آخر ی مراحل میں ہے، ہماری کوشش ہے کہ وہ گوادر میں ہو۔ یہ بلوچستان کے لیے بڑا تحفہ ہوگا۔‘
انہوں نے زراعت کے حوالے سے بتایا کہ ’بلوچستان حکومت نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں کچھی کینال اور لسبیلہ میں زراعت کے دو بڑے منصوبے تجویز کیے ہیں جس کے لیے عالمی سرمایہ کاروں کو پیشکش کی جائے گی۔‘
’کچھی کینال منصوبہ کئی دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔ اسی طرح بیلہ سے آگے 150 کلومیٹر علاقے میں پانی کی بہت فراوانی ہے جو سمندر میں گرتا ہے۔ وہاں زراعت کی بڑے پیمانے پر گنجائش ہے۔ یہ دونوں بڑے منصوبے غیر ملکی زرمبادلہ لانے اور بلوچستان کی معاشی ترقی کا باعث بنیں گے۔‘
’بلوچستان کے عوام کو دبئی کی طرز کی زندگی دیں گے‘
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے کھولنے کی کوشش ہے تاکہ نہ صرف پاکستان کو معاشی بحران سے نکالیں بلکہ بلوچستان کی عوام کو دبئی کی طرز کی زندگی دیں۔
’کراچی شاہراہ کو دو رویہ کرنے کے لیے ایک حصے پر غیر ملکی کمپنی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ دوسرے حصے پر حکومت خود کام کر رہی ہے جس پر وزیراعظم کی دلچسپی سے تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔‘
’شمالی بلوچستان کو صوبہ پنجاب سے ملانے والی شاہراہ پر فورٹ منرو پر سرنگ بنائی جائے گی جس کے لیے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن سے معاملات طے پا چکے ہیں۔‘
بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے امن و امان سے متعلق خدشات کے بارے میں سوال پر نگراں صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا ’پہلی بات یہ کہ سرمایہ داروں کو یہ خدشہ نہیں کہ یہاں پر بم پھوڑے جا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں آپ نے پراجیکٹ چلانا ہے ہم نے آپ کو پیسے دینے ہیں۔ ان کو یہ خدشہ ہے کہ جو ہم فری ٹریڈ زون بنا رہے ہیں ان میں قوانین کونسے لاگو ہوں گے؟ ان کومتحدہ عرب امارات، چین جیسے قوانین چاہیے۔‘
’سرمایہ کاروں کو ریڈ ٹیپ کے نظام سے تحفظ چاہیے‘
’سرمایہ کاروں کو کوٹ کچہریوں کے چکر اور بیورو کریسی میں رائج ریڈ ٹیپ نظام سے تحفظ چاہیے اور اس کے لیے انہیں ٹھوس یقین دہانیوں کی ضرورت ہے۔‘
جان اچکزئی نے سرکاری دفاتر میں رائج نظام کو ناکارہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ریڈ ٹیپ نظام کی وجہ سے پاکستان رک گیا ہے۔ اس نظام کو ہم نے توڑنا ہے یہ بڑا چیلنج ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے۔‘
’بلوچستان میں ریڈ ٹیپ بہت زیادہ ہے اب اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں جو افسران اس فرسودہ نظام پر یقین رکھتا ہے وہ گھربیٹھ جائیں۔ بلوچستان کو آگے بڑھنا ہے اور اپنے اس نظام میں اصلاحات کرنی ہے۔ ہم نے ہر ڈالر کو خوش آمدید کہنا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم صرف ڈیک پر بیٹھ کر فائلوں کو اوپر نیچے کرتے رہیں۔‘
’قوم پرست مسائل کو سیاسی بیانیے کے لیے استعمال کرتے ہیں‘
صوبائی وزیر نے غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق قوم پرستوں کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسائل کو سیاسی بیانیے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جمہوریت میں رائے کا احترام ہے مگر یہ صرف قوم پرستوں کا سیاسی بیانیہ ہے، سرمایہ کاروں اور کمیونٹی کو کوئی مسئلہ نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر سمیت بڑے منصوبوں میں مقامی لوگوں کو پورا پورا فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ بڑے منصوبے عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچائیں گے تو یہ صوبے کے ساتھ مجرمانہ عمل ہوگا۔ان کے بقول صوبائی حکومت کو ریکوڈک منصوبے سے ہر چوتھا ڈالر اور باقی غیرملکی سرمایہ کاری سے ہر پانچواں ڈالر ملے گا۔
قلعہ عبداللہ اور پشین میں منشیات کے خلاف آپریشن سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ پانچ سالوں کے دوران سب سے بڑا آپریشن کیا گیا، جس میں ہزاروں اہلکاروں نے حصہ لیا، فیکٹریاں تباہ کی گئیں اور ہزاروں میں کلو گرام منشیات تلف کی گئیں۔
’منشیات کی پیداوار اور کاروبار میں افغان باشندے بھی ملوث ہیں جن میں 200 سے زائد گرفتار ہوئے ہیں. اسی طرح علاقے میں سابق افغان حکومت کے لوگوں کی موجودگی کو ختم کیا گیا اور اس پورے علاقے کو محفوظ بنایا گیا۔‘