Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل کے معاملے پر نیویارک کی یہودی آبادی کا غم سانجھا لیکن رائے منقسم

نیویارک کی یہودی آبادی نے فلسطین کے حق میں بھی ریلی نکالی۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی ریاست نیو یارک کی یہودی آبادی حماس کے اسرائیلی شہریوں پر حملے کے بعد حکومتی ردعمل پر منقسم دکھائی دیتی ہے جہاں کچھ آوازیں اسرائیل کے حق میں اٹھ رہی ہیں تو دیگر فلسطینیوں کی ’نسل کشی‘ کے خلاف خبردار کر رے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل کے بعد سب سے زیادہ یہودی ریاست نیو یارک میں آباد ہیں جن کی تعداد 16 لاکھ ہے۔ 
جمعے کی شام کو نیویارک کی یہودی آبادی نے بروک لین کے علاقے میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ریلی نکالی اور امریکی کانگریس سے جنگ بندی اور اسرائیل کے لیے اربوں کی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ریلی کے شرکا نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ’یہودی کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرو۔‘
اس ریلی کا اہتمام بائیں بازو کی جماعت ’جیو اش وائس فار پیس‘ نے کیا تھا۔ ریلی نے امریکی سینیٹر شک شومر کے گھر کے سامنے بھی احتجاج کیا۔
یہودی مذہب کے پیروکار سینیٹر چک شومر اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی میں دیگر ارکان کا ایک وفد تل ابیب لے کر جا رہے ہیں۔
بائیں بازو کی جماعت جیو اش وائس فار پیس (جے وی پی) کے رکن جے سیپر نے اسرائیلی فوج کے 75 سالہ قبضے اور اپرتھائیڈ سمیت جبر کے اس نظام میں امریکہ کی ملی بھگت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد واقعات کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ معاملات کی بنیادی وجوہات کو حل کیا جائے۔
جبکہ کچھ نیو یارک کے یہودیوں کا کہنا ہے کہ حماس کے خوفناک حملے اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار 300 اسرائیلیوں کی ہلاکت نے ان کی اسرائیل کے لیے حمایت کو مزید مضبوط کیا ہے۔
25 سالہ فلپ وولف نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ مذہبی نہیں ہیں لیکن ہولوکاسٹ کے دوران ان کے پورے خاندان کو ختم کر دیا گیا تھا، ’اس لیے میں ایک پھلتی پھولتی اسرائیلی ریاست کی اہمیت سے واقف ہوں۔‘
’اور گزشتہ ہفتے کے واقعات کے بعد سے یہ تعلق مزید گہرا ہو گیا ہے۔‘

نیویارک میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے اسرائیل کے حق میں ریلی نکالی جنہیں گورنر کی بھی حمایت حاصل تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکہ میں نمایاں یہودی تنظیموں بشمول امریکی یہودی کمیٹی اور یونائیٹڈ جیو اش اپیل نے اسرائیل کے حق میں ہونے والے مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ ان مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی جبکہ ریاست نیو یارک کی گورنر کیتھی ہوچل اور میئر ایرک ایڈمز کی جانب سے بھی مضبوط حمایت حاصل تھی۔
حماس کے حملے کے دو دن بعد مین ہیٹن کے ایک یہودی عبادت گاہ کے ربی آرتھر شنایئر نے اسے 1948 کے بعد سے اسرائیلیوں کے وجود کے لیے بدترین خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا ’بطور امریکی یہودی کمیونٹی ہماری خاص ذمہ داری بنتی ہے۔‘
نیویارک کی پیشوا میلسا بائیر وٹمن نے کہا ’مجھے یقین ہے کہ امریکی ایک مرتبہ پھر متحد ہوں گے اور اسرائیل کی حمایت کریں گے چاہے وہ یہودی ہیں یا نہیں۔‘
ایک ترقی پسند میگزین ’جیو اش کرنٹ‘ کے سینیئر لکھاری ایلکس کین نے کہا کہ امریکہ میں عوامی رائے اور بالخصوص امریکی یہودیوں کی رائے میں فلسطینیوں کے بجائے اسرائیلیوں کے ساتھ ہمدردی واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن گزشتہ دس سال میں اسرائیل پر تنقید میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں اس کا فلسطینیوں کے ساتھ سلوک اور حکومت کا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ شامل ہے۔
سال 2021 میں جیو اش الیکٹوریٹ انسٹی ٹیوٹ نے یہودی ووٹرز کی رائے جاننے کے لیے ایک سروے کیا تھا جس میں 25 فیصد جواب دہندگان نے کہا تھا کہ ’اسرائیل ایک اپرتھائیڈ ریاست ہے۔‘
ایلکس کین نے کہا کہ یہ امریکی یہودیوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو یقیناً اقلیت میں ہیں لیکن ان کے خیال میں اسرائیل اپرتھائیڈ والے جرائم کا مرتکب ہے۔
جے وی پی کی جانب سے جاری بیان میں ادارے کی سابق ڈپٹی ڈائریکٹر الیسا وائز نے کہا ’ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے غیرمشروط حمایت بشمول عسکری فنڈنگ میں اضافے کے پیچھے دراصل شدید غم، غصہ اور پریشانی ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زیادہ ہتھیار سب کے لیے صرف نقصان کا باعث بنیں گے۔‘

شیئر: