کیا سابق پولیس افسر عابد باکسر کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے؟
کیا سابق پولیس افسر عابد باکسر کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے؟
بدھ 18 اکتوبر 2023 10:45
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
2008 میں جب صوبے میں مسلم لیگ ن کی دوبارہ حکومت آئی تو عابد باکسر ملک چھوڑ گئے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
لاہور میں تیرہ سال پہلے لوئر مال کے علاقے میں ایک پولیس کانسٹیبل اور ان کے دوست کو دو افراد نے گھر کی دہلیز پر قتل کیا۔ پولیس ریکارڈ میں اس کیس کی مزید تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ مرنے والے کانسٹیبل کا نام خالد پرویز جبکہ ان کے دوست 17 سالہ عمران لیاقت کے مبینہ قاتلوں کا پولیس نے سراغ تو لگا لیا لیکن وہ دبئی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
عمران لیاقت کے بھائی کامران لیاقت نے اپنے بھائی کے قتل کے کیس کی پیروی کبھی نہ چھوڑی اور اس دوران وہ خود بھی پولیس میں افسر بھرتی ہو گئے۔ کامران آج کل اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے عہدے پر آرگنائزڈ کرائم یونٹ او سی یو (پرانا سی آئی اے) میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
پولیس میں بھرتی کے بعد کامران نے اپنے بھائی کے قاتلوں کا سراغ لگانے کی کوششوں کو اور بھی تیز کر دیا اور پھر پولیس نے دبئی سے ایک مبینہ قاتل عدنان عرف دانو کو 12 سال بعد انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر لیا اور وہ اب جیل میں ہے۔
جبکہ دوسرا ملزم انجم شریف ابھی تک مفرور ہے۔ لاہور کی سیشن عدالت میں ایک ملزم کی گرفتاری کے بعد ٹرائل کا آغاز ہوچکا ہے۔ اے ایس آئی کامران کیس کی پیروی کے لیے ہر پیشی پر عدالت جاتے ہیں۔
گزشتہ پیشی پر جاتے ہوئے راستے میں بھائی کے مبینہ قاتل انجم شریف نے انہیں ساتھیوں سمیت روک لیا۔ تھانہ داتا دربار میں درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق ملزمان نے پولیس آفیسر کو دھمکی دی کہ کیس کی پیروی چھوڑ دو ورنہ انجام برا ہو گا۔
عابد باکسر کی انٹری
لاہور کے تھانہ داتا دربار میں درج ایف آئی آر کے مطابق اس وقوعہ سے ایک ماہ قبل عابد باکسر نامی سابق پولیس افسر نے کامران کے دوست کے نمبر پر فون کر کے ان سے بات کی اور اس کیس سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی اور گالم گلوچ کی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ’گرفتار ملزم عدنان عرف دانو کی اہلیہ دبئی میں عابد باکسر کا ڈانس کلب چلاتی ہیں اور ان ملزمان کے انڈر ورلڈ شوٹرز سے رابطے ہیں۔ مقدمہ درج کر کے مجھے انصاف دیا جائے اور ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔‘
اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس کی بھاری نفری ماڈل ٹاؤن میں عابد باکسر کی رہائش گاہ کو گھیر لیتی ہے۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ اہل علاقہ بھی دیکھتے ہیں اور اپنے موبائل فونز میں اس کے کئی مناظر محفوظ بھی کر لیتے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پولیس اہلکاروں اور سابق پولیس افسر عابد باکسر کے درمیان تلخ کلامی ہوتی ہے اور اس کے بعد پولیس اہلکار عابد باکسر کو تشدد کا نشانہ بناتےہیں اور پھر ہاتھ پاؤں باندھ کر پولیس جیپ میں وہاں سے روانہ ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد مقامی میڈیا پر ایک ایسی خبر چلتی ہے جس میں معاملہ گھمبیر ہوجاتا ہے۔ پولیس ذرائع نے ٹی وی چینلز پر بتایا کہ عابد باکسر پولیس حراست سے فرار ہو گئے ہیں اور ساتھ میں دو سرکاری رائفلیں اور اپنے دو باڈی گارڈ بھی چھڑوا کر لے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق ابھی تک وہ روپوش ہیں۔
عابد باکسر کون ہیں؟
چکوال کے علاقے سے تعلق رکھنے والے عابد حسین عرف عابد باکسر اوائل عمری میں ہی لاہور آ گئے تھے۔ انہوں نے 1986 میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں کھیلوں کے کوٹے میں داخلہ لیا اور کالج کی باکسنگ ٹیم میں شامل ہو گئے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے گیم میں ہی مخالف کھلاڑی کو مکا مار کر رِنگ سے باہر پھینک دیا تھا۔
اسی واقعے کے بعد انہیں عابد باکسر کہا جانے لگا۔ سال 1988 میں وہ محکمہ پولیس میں کھیلوں کے کوٹے پر اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی ہوئے۔ اور نیشنل گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے پر انہیں سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ کے انچارج کرائم سیل سید مشرف شاہ پچھلی تین دہائیوں سے عابد باکسر کے حوالے سے خبریں چھاپتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’عابد باکسر نوے کی دہائی میں لاہور شہر میں دہشت کی علامت تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر میں گوگی بٹ، طیفی بٹ، ٹیپو ٹرکاں والا، عاطف چوہدری اور ہمایون گجر جیسے گینگسٹر سرگرم تھے۔ پولیس نے اس دوران خصوصی یونٹ قائم کیا اور درجنوں جرائم پیشہ ور افراد کو پولیس مقابلوں میں پار کیا تو اس وقت عابد باکسر کا نام محکمے کے اندر اور باہر انکاؤنٹر سپیشلٹ کے طور پر پہچان بن چکا تھا۔‘
پنجاب پولیس کی تاریخ اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ پولیس مقابلے 1997 اور 1999 کے درمیان ہوئے جن کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 70 مقابلے ایسے ہیں جو عابد باکسر سے منسوب کیے جاتے ہیں۔
تاہم جلد ہی ان کے خلاف خود بھی محکمہ ایکشن میں آ گیا اور ان کے خلاف بھی مقدمات درج ہونا شروع ہوگئے۔ ان پر پہلا مقدمہ ایک طاہر پرنس نامی شخص کو جعلی مقابلے میں مارنے کا درج ہوا۔
ایک اعلٰی پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’سال 1999 میں عابد باکسر پر دو درجن سے زائد مقدمات درج ہو چکے تھے۔ اصل میں سرکاری معاملات سے زیادہ انہوں نے ذاتی چیزیں شروع کر دی تھیں جو محکمے کو قبول نہیں تھیں۔ 12 اکتوبر 1999 کی رات کو عابد باکسر کو پولیس مقابلے میں مارنے کا منصوبہ بنا تھا لیکن جنرل مشرف کے مارشل لا کی وجہ سے اچانک یہ کام رک گیا۔‘
عابد باکسر نے اپنے کئی انٹریوز اور وی لاگز میں بھی اس واقعے کی تصدیق کی ہے کہ انہیں پولیس نے مارنے کی کوشش کی اور کسی غیبی طاقت نے انہیں بچا لیا۔
ان پر قتل، ڈکیتی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی جیسے سنگین الزامات کے تحت پولیس نے کئی مقدمات درج کیے۔ سال 2002 میں عابد باکسر پر پاکستانی اداکارہ نرگس نے بھی اپنے اوپر تشدد کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے اپنی تصویریں بھی جاری کی تھیں جن میں ان کے سر کے بال اور بھنویں بلیڈ سے مونڈھی گئی تھیں۔
سال 2008 میں جب صوبے میں مسلم لیگ ن کی دوبارہ حکومت آئی تو عابد باکسر ملک چھوڑ گئے اور وہ 10 سال خود ساختہ جلا وطنی میں دبئی میں رہے۔ اور پھر 2018 میں وہ اچانک پاکستان واپس آئے۔ اس وقت ایک تاثر یہ بھی قائم تھا کہ شاید وہ شہباز شریف کے خلاف جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے کسی مہم کا حصہ بنیں گے تاہم ایسی نوبت نہیں آئی۔
تاہم ان کے مقدمات یا تو پولیس نے واپس لے لیے یا انہیں عدالتوں نے بری کر دیا۔
انہیں تحریک انصاف کے دور میں انسپکٹر کے عہدے پر دوبارہ بحال بھی کیا گیا تاہم دو مہینے کے بعد ہی انہوں نے باقاعدہ ریٹائرمنٹ لے لی۔
پولیس کے باکسر اب کہاں ہیں؟
گذشتہ ہفتے تک عابد باکسر لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں اپنی ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے کہ پولیس نے ان کے گھر ریڈ کیا اور ایک نوجوان پولیس افسر کو دھمکانے اور جرائم پیشہ افراد کو پناہ دینے کے الزام میں حراست میں لے لیا۔
تاہم تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج اس واقعے کی ایف آر میں پولیس کا کہنا ہے کہ جب عابد باکسر کو حراست میں لیا گیا تو ان کے ملازمین نے پولیس پر حملہ کر دیا اور ایک اہلکار سے سرکاری بندوق لے کر وہ فرار ہو گئے۔
اب تک عابد باکسر کے خلاف تین مقدمات سامنے آ چکے ہیں۔ ایک پولیس آفیسر کو دھمکانے کا، ایک پولیس حراست سے بھاگنے کا اور ایک اغوا برائے تاوان کا۔ تاہم پولیس ان کے خلاف دبئی میں کاروبار کے حوالے سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی کر رہی ہے۔
عابد باکسر کی اہلیہ البتہ ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم گھر میں موجود تھے جب چار پولیس افسران جن میں محمد علی بٹ، راشد امین بٹ، ماجد بشیر اور میاں قدیر پچاس ساٹھ لوگوں کے ساتھ حملہ آور ہوئے اور میرے شوہر پر تشدد کرتے رہے اور مجھ پر بھی تشدد کیا۔ اس کے بعد مارتے ہوئے زخمی حالت میں لے کر گئے۔ میرے شوہر کو سی آئی اے پولیس میری آنکھوں کے سامنے لے کر گئی ہے۔ وہ انہیں مارنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔‘
اہم بات یہ ہےکہ جن افسران پر ان کی اہلیہ الزام عائد کر رہی ہیں، ان میں سے عابد باکسر نے راشد امین بٹ پر پہلے ہی مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔ جبکہ ماجد بشیر اداکارہ نرگس کے شوہر ہیں۔
پولیس کے مطابق عابد باکسر فرار ہیں جبکہ ان کی اہلیہ کے مطابق وہ سی آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ اس حوالے سے جب اردو نیوز نے او سی یو (پرانا سی آئی اے) کے سربراہ کیپٹن ریٹائرڈ ملک لیاقت سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اس قسم کی کوئی معلومات نہیں ہیں اور نہ میں اس موضوع پر کوئی کمنٹ کروں گا۔‘