’9 ماہ میں 40 ڈکیتیاں‘ لیکن اسلام آباد پولیس کا بہتر کارکردگی کا دعویٰ
’9 ماہ میں 40 ڈکیتیاں‘ لیکن اسلام آباد پولیس کا بہتر کارکردگی کا دعویٰ
ہفتہ 14 اکتوبر 2023 5:53
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
پولیس کا موقف ہے کہ غفلت بھرتنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ (فوٹو: پکسابے)
ایک ہوٹل پر ناشتہ کرنے کے لیے کچھ لوگ موجود ہیں۔ اتنے میں تین موٹرسائیکل سوار آتے ہیں اور سڑک کنارے موجود لوگوں کو گن پوائنٹ پر لُوٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ افراتفری پھیل جاتی ہے۔ ہوٹل کے ہال میں دو پولیس اہلکار بھی ناشتہ کر رہے ہیں۔ جو اس صورت حال سے یا تو بے خبر ہیں یا پھر نظرانداز کر رہے ہیں۔
اس دوران ڈکیتوں کو پولیس اہلکاروں کی موجودگی کا علم ہوتا ہے۔ ان میں سے دو اندر جاتے ہیں اور بڑے سکون کے ساتھ بغیر کسی مزاحمت کے ان سے بندوقیں لے کر باہر آ جاتے ہیں۔
یہ کسی فلم کا منظر نہیں ہے بلکہ اسلام آباد کے تھانہ سنگجانی میں پیش آئی حقیقی واردات ہے۔ جس کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے۔
اس ساری واردات کے دوران پولیس اہلکاروں نے نہ صرف اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک عینی شاہد کے مطابق ڈکیت جب واردات کرکے روانہ ہونے لگے تو دونوں پولیس اہلکاروں نے ان کی منت سماجت شروع کر دی کہ بندوقیں واپس کر دیں۔ نوکری کا سوال ہے۔ جس پر ان ڈکیتوں نے میگزین خالی کرکے بندوقیں ان کو واپس کر دیں او میگزین لے گئے جو کچھ دور جا کر پھینک گئے۔
ڈکیتی کی وارداتیں اور پولیس اہلکاروں کا رویہ، متاثرین کی زبانی
اسلام آباد میں عام پولیس اہلکاروں کے ساتھ جرائم پر قابو پانے کے لیے ڈولفن فورس بھی ہمہ وقت گشت کرتی رہتی ہے لیکن ڈکیت اس معاملے میں پولیس سے بھی ہوشیار ہیں کہ وہ وارداتیں ایسے علاقوں میں کرتے ہیں جہاں مختلف تھانوں کی حدود قریب ہوتی ہیں۔
اردو نیوز نے ان ڈکیتیوں کا نشانہ بننے والے کچھ متاثرین سے بات کی ہے جنھوں نے بتایا کہ اول تو ڈولفن فورس اور پولیس اہلکار موقع پر موجود ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے۔ زیادہ زور دیں تو تھانے کی حدود کا بہانہ بناتے ہیں۔ اگر شہری مزید اصرار کرے تو اسے ون فائیو پر کال کرنے یا پھر تھانے جا کر رپورٹ درج کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود مال مسروقہ برآمدگی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔
نعیم اصغر فیض آباد بس سٹینڈ پر موجود تھے اور آن لائن ٹیکسی بک کرنے کے لیے فون نکالا ہی تھا کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے اور جھپٹا مار کر فون لے اڑے۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے بائیکیا لے کر ان کا پیچھا کیا تو کچھ ہی فاصلے بعد ڈولفن پولیس فورس نظر آئی۔ ان کو واردات کا بتا کر ڈاکوؤں کو پکڑنے کی درخواست کی تو انھوں نے الٹا مجھ سے تفتیش شروع کر دی اور یہاں تک کہہ دیا کہ تم نے فون کیوں نکالا تھا؟ بعد ازاں ڈولفن فورس نے یہ کہہ کر پیچھا کرنے سے انکار کر دیا کہ ’وہ ہمارے تھانے کی حدود سے نکل کر راولپنڈی کی حدود میں چلے گئے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’بعد میں جب تھانہ آئی نائن میں ایف آئی آر درج کرانے گیا تو بھی ایس ایچ او نے کہا میں راولپنڈی کے تھانہ نیوٹاؤن چلا جاؤں۔ لیکن میں بضد رہا کہ واردات اسلام آباد میں ہوئی ہے۔ تفتیشی افسر نے موقع دیکھ کر کہا کہ ایف آئی درج ہو جائے گی۔ جب مزید کارروائی کرنے کا کہا تو مجھے کہا گیا کہ ایسی وارداتوں میں کیا کیا جا سکتا ہے۔‘
نعیم اصغر نے بتایا کہ ’کسی اثرورسوخ کے نتیجے میں تفتیشی اگلے دن مجھے لے کر سیف سٹی ہیڈکوارٹر گئے اور کیمروں میں ملزمان کو پہچاننے کی کوشش کی۔ پہلے تو سیف سٹی میں آپریٹر نے عجیب رویہ اپنایا اور جب فوٹیج دکھانے پر مجبور ہوا تو سیف سٹی کیمروں کی کوالٹی کا بھید کھلا کہ وہ بغیر ماسک کے بھی وہاں موجود لوگوں اور ڈاکوؤں کے چہرے پہچانے جانے کے قابل نہیں تھے۔‘
اسی طرح کی ایک اور واردات ایک شہری عبدالرحمان کے ساتھ 26 نمبر چونگی پر پیش آئی جب ایک موٹر سائیکل سوار ان کے ہاتھ سے موبائل فون چھین کر بھاگ گیا۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ ’جب یہ واردات ہوئی تو بالکل پاس ہی پولیس اہلکار موجود تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور بتایا تو انھوں نے کہا کہ آپ کو تو تھانے جانا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ چور وہ سامنے جا رہا ہے۔ آپ یہاں موجود ہیں تو میں تھانے کیوں جاؤں؟ تاہم پولیس والے نے صرف ادھر ادھر فون کرنے پر ہی اکتفا کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب میں تھانے گیا اور ایف آئی آر درج کروائی تو اے ایس آئی نے کہا کہ میرے پاس اس طرح کے 80 کیسز ہیں۔ ہم آپ کا کیس بھی درج کر لیتے ہیں۔ اب دو مہینے گزر چکے ہیں لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘
سہیل خان ایئرپورٹ سے ٹیکسی میں سفر کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف آ رہے تھے کہ اچانک انھیں فائر کی آواز سنائی دی۔ انھیں شک گزرا کہ ان کی یا کسی ساتھ والی گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوا ہے۔ لیکن اس دوران ٹیکسی ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ ان کے چہرے سے خون بہہ رہا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ڈاکوؤں نے کوئی بڑا پتھر ان کی کار کے شیشے پر مارا تھا اور وہ پتھر اور شیشے کے ٹکڑے ان کے چہرے پر لگے جس سے ان کے تین دانت، جبڑا اور چہرا متاثر ہو چکا تھا۔
سہیل خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اتنی دیر میں ڈاکو آئے اور انھوں نے زخمی ہونے کے باوجود میرا بٹوہ لیا اور سارے پیسے نکال لیے اور فون بھی لے گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور سے پہلے فون لیا اور جب اس نے منت کی تو اسے واپس کر کے بھاگ گئے۔ ٹیکسی ڈائیور نے فون کیا تو پولیس نے ہمیں پمز ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔‘
ان کے بقول ’پولیس اہلکار آتے رہے اور واردات کے بارے میں پوچھتے رہے۔ سب سے آخر میں پنجاب پولیس کا اہلکار آیا اور نئے سرے سے ساری معلومات لیں۔ اگلے دن موبائل پر آنے والے ایس ایم ایس سے مجھے پتہ چلا کہ رات کو دراصل راولپنڈی اور اسلام آباد پولیس حدود کے تعین میں لگے رہے اور بالآخر اگلے دن راولپنڈی کے تھانہ نصیرآباد میں ایف آئی آر درج ہو گئی۔‘
پولیس کا موقف ہے کہ غفلت بھرتنے اور وارداتوں کے درمیان کمزوری دکھانے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔
پولیس ترجمان تقی جواد کا کہنا ہے کہ ’ان تمام مقدمات کی ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور ضابطے کی کارروائی کی جا رہی ہے۔ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اس لیے تمام معاملات قانون کے مطابق دیکھے جائیں گے۔
پولیس کارکردگی میں بہتری کا دعویٰ اور اعدادوشمار میں تضاد
دوسری جانب اسلام آباد پولیس کا دعویٰ ہے کہ 2022 کے پہلے نو ماہ میں گذشتہ سال کی نسبت پولیس کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ گذشتہ سال کی نسبت برآمدگی کی شرح میں 65 فیصد، مختلف جرائم میں ملوث گینگز کے خاتمے میں 33 فیصد جبکہ گینگز کی گرفتاری میں 28 فیصد بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
پولیس ترجمان کے مطابق راہزنی، ڈکیتی کے واقعات میں گذشتہ سال کے مقابلہ میں11 فیصد کمی ہوئی ہے۔ رواں سال کے دوران 1355 مجرمان گرفتار، جو سال 2022 کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔ سال 2023 میں کل 546 گینگز کی بیخ کنی کی گئی، جو پچھلے سال کے مقابل 33 فیصد زائد ہے۔ رواں سال کل 18 ہزار 320 ایف آئی آرز کا اندراج ہوا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 5 فیصد زائد ہے۔ 26 کروڑ 07 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی مال مسروقہ برآمد، جو سال 2022 کے مقابلے 65 فیصد زائد ہے۔
پولیس کے اپنی کارکردگی کے دعوؤں کے برعکس اسلام آباد میں جرائم کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2023 سے ستمبر تک راہزنی کی 2256 وارداتیں ہوئیں، جبکہ گذشتہ سال راہزنی کی 1756 وارداتیں ہوئیں تھیں۔ نو ماہ میں 40 بڑی ڈکیتیاں، چوری کی 2060 وارداتیں، کروڑوں روپے کی 641 کاریں اور لاکھوں روپے کے 3015 موٹر سائیکل چوری ہوئے۔ جبکہ گذشتہ برس 511 گاڑیاں اور 2654 موٹر سائیکل چوری ہوئے تھے۔