1999 کے ورلڈ کپ میں جگہ نہیں بنتی تھی، وقار یونس کا کھلے دل سے اقرار
1999 کے ورلڈ کپ میں جگہ نہیں بنتی تھی، وقار یونس کا کھلے دل سے اقرار
جمعرات 19 اکتوبر 2023 6:18
محمود الحسن -لاہور
وقار یونس نے 24 سال بعد کھلے دل سے تسلیم کیا کہ ان کا بینچ پر بیٹھ کر میچ دیکھنا ہی بنتا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کرکٹ میچ کے دوران کمنٹری کرتے ہوئے وقار یونس نے سنہ 1999 کے ورلڈ کپ کا تذکرہ چھیڑا اور بتایا کہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم اس قدر مضبوط تھی کہ اسے ان کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ اس ورلڈ کپ میں بنگلا دیش کے خلاف میچ ہی کھیل سکے جس کی یاد بھی ٹیم کے ہار جانے کی وجہ سے خاصی تلخ ہے۔
ان کی ٹیم میں جگہ کیوں نہیں بنتی تھی اس کی وجہ انہوں نے ٹیم میں ان بولروں کی موجودگی کو قرار دیا جن میں وسیم اکرم، شعیب اختر، ثقلین مشتاق، عبدالرزاق، اظہر محمود اور شاہد آفریدی شامل تھے۔
وقار یونس نے 24 سال بعد کھلے دل سے تسلیم کیا کہ ان کا بینچ پر بیٹھ کر میچ دیکھنا ہی بنتا تھا، لیکن 99 کے ورلڈ کپ کے دوران بھی ایک موقع ایسا ضرور آیا جب انہیں یہ بات ماننا پڑی کہ ان کا ٹیم سے باہر ہونا قرینِ انصاف ہے۔
ورلڈ کپ میں پاکستانی کوچ مشتاق محمد نے اپنی کتاب ’انسائیڈ آوٹ‘ میں وقار یونس کو فائنل الیون میں شامل نہ کرنے کے معاملے پر روشنی ڈالی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ورلڈ کپ کے دوران وقار یونس ان کے بہترین دوست تھے۔ ان کی زیادہ تر شامیں اکٹھی گزرتیں، وہ رات کا کھانا ایک ساتھ کھاتے اور وقار کا موڈ ایسا خوشگوار تھا جیسے وہ ٹیم کا حصہ ہوں۔ ان کے رویے میں تلخی کاشائبہ نہ تھا۔ البتہ ایک دن ان کے رویے میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ نیوزی لینڈ سے پاکستان کے میچ جیتنے کے بعد، وقار یونس کوچ سے برسر پیکار ہوئے۔ بولنگ میں اپنے کارنامے گنوائے جن سے ظاہر ہے اختلاف کی گنجائش ہی نہ تھی۔
مشتاق محمد نے وقار سے کہا کہ وہ ان کی جگہ ہوتے تو اس سے بھی زیادہ ناراضی کا اظہار کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ وقار کی ٹیم میں شمولیت سے ٹیم کا توازن خراب ہو جائے گا۔
مشتاق محمد نے وقار یونس کا غصہ فرو کرنے کی ایک ترکیب لڑائی۔ انہیں کہا کہ ذرا خود ٹیم منتخب کریں۔ اب وقار یونس نے کاغذ قلم پکڑا اور ٹیم سلیکٹ کی جس میں وہ اپنا نام ڈالنے سے قاصر رہے اور یہ مان لیا کہ ہاں ٹیم میں ان کی جگہ نہیں بنتی۔ یہ بات تسلیم کرنا ان کی دیانت داری کی دلیل ہے۔
وقار یونس کو ٹیم سے باہر ہونے کا قلق اس لیے بھی زیادہ ہو گا کہ انگلینڈ میں بین الاقوامی اور کاؤنٹی کرکٹ میں وہ اپنا لوہا منوا چکے تھے۔
ان کی طرح مشتاق احمد کی انگلینڈ میں پرفارمنس بھی بہت عمدہ تھی، لیکن وہ بھی میدان سے باہر بیٹھ کر میچ دیکھتے رہے۔ وقار یونس اور مشتاق احمد انگلینڈ میں بہترین کارکردگی کی بنا پر وزڈن کرکٹرز آف دی ائیر کا اعزاز بھی حاصل کر چکے تھے۔
محمد یوسف نے بھی چند دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل پر بتایا کہ 99 کے ورلڈ کپ جیسی مضبوط پاکستانی ٹیم بعد میں کسی ورلڈ کپ میں شریک نہیں ہوئی اور آئندہ بھی اس جیسی ٹیم بننے کا امکان بہت کم ہے۔
عمران خان نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ ورلڈ کپ کے بعد اپنے پیچھے ایسی ٹیم چھوڑ کر گئے جو آئندہ دو ورلڈ کپ مقابلوں میں فیورٹ تھی۔
بات کو اگر ورلڈ کپ کے دائرے سے باہر لے جایا جائے تو سابق ٹیسٹ کرکٹر مدثر نذر کی اس بات میں بھی بڑا وزن ہے کہ نوے کی دہائی کی پاکستان ٹیم آسٹریلیا کے پائے کی ٹیم تھی، لیکن میچ فکسنگ، کھلاڑیوں کے اختلافات اور غلط پالیسیوں کے باعث وہ آسٹریلیا جتنی کامیابیاں نہ سمیٹ سکی۔
اب دوبارہ 99 کے ورلڈ کپ کی طرف پلٹتے ہیں اور وسیم اکرم کی کتاب ’سلطان‘ سے رجوع کرتے ہیں جنہیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اب ہمارا وقت ہے۔ ورلڈ کپ کے پہلے تین میچ جیت کر پاکستان چھا گیا۔ وسیم اکرم نے لکھا ہے کہ ہر دوسرے روز انہیں وزیراعظم نواز شریف کا فون آ جاتا جس میں وہ گذشتہ میچ کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے اور اگلا میچ جیتنے پر زور دیتے۔
اس ورلڈ کپ میں وسیم اکرم کو ایک کال عمران خان کی بھی موصول ہوئی۔ یہ بنگلا دیش سے میچ ہارنے کے بعد کی بات ہے۔ عمران خان نے وسیم اکرم سے ٹیم کی شکست پر بات کی اور ان سے کہا کہ وہ بنگلا دیشی ٹیم کی تعریف ضرور کریں۔ وسیم اکرم نے یہ بیان دیا کہ انہیں خوشی ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں سے ہارے ہیں۔ یہ بیانِ صفائی عوام نے مسترد کر دیا۔
سپر سکس میں پاکستان پہنچ گیا۔ اس مرحلے میں جنوبی افریقہ نے لانس کلوزنر کی عمدہ پرفارمنس کی وجہ سے میچ تین وکٹوں سے جیت لیا۔ اس کے بعد پاکستان کا انڈیا سے ایسے وقت میں میچ ہوا جب کارگل میں لڑائی ہو رہی تھی۔
وسیم اکرم نے لکھا ہے کہ انڈیا کے خلاف گذشتہ کئی ون ڈے میچوں میں پاکستان ٹیم فاتح رہی تھی، لیکن ورلڈ کپ میں روایتی حریف سے ہارنے کی ریت برقرار رہی۔ نواز شریف جو اس سے پہلے وسیم اکرم سے گفتگو میں لارڈز میں فائنل دیکھنے کا ارادہ ظاہر کرچکے تھے، انڈیا سے ہار کے بعد انگلینڈ آنے کے بارے میں ڈھلمل یقین ہو گئے۔
پاکستان سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا سے تھا۔ پاکستانی ٹیم نے اس میچ میں بڑا خراب کھیل پیش کیا اور 132رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ یہ اس مضبوط بیٹنگ لائن اپ کا حال تھا جس میں وسیم اکرم نویں نمبر پر بیٹنگ کرنے آئے۔
اعجاز احمد 22 رنز بنا کر ٹاپ سکورر رہے۔ آسٹریلیا نے دو وکٹوں کے نقصان پر یہ ہدف بیس اووروں میں پورا کرکے دوسری دفعہ ورلڈ کپ جیت لیا۔ 99 کے بعد سے پاکستان فائنل میں نہیں پہنچ سکا۔
پاکستانی شائقین بنگلا دیش اور انڈیا سے ہار پر پہلے ہی ناراض تھے، فائنل میں شکست نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ٹیم پر الزامات کی بوچھاڑ ہو گئی۔
میچ فکسنگ کے الزامات لگے۔ کھلاڑیوں پر لعن طعن ہوئی۔ وسیم اکرم نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انضمام الحق کے گھر پر پتھراؤ ہوا اور ان کا اپنا پتلا جلایا گیا۔ اس ردعمل کی شدت 96 کے مقابلے میں بہت کم تھی جب بنگلور میں انڈیا سے کوارٹر فائنل میں شکست کے بعد وسیم اکرم کے خلاف منظم مہم چلی۔
ان فٹ ہونے کے باعث میچ میں حصہ نہ لینے کے ڈانڈے میچ فکسنگ سے ملائے گئے۔ میچ سے پہلے کی رات نائٹ کلب میں ڈانس کرنے کی تہمت لگی۔ ان کے گھر ٹیلی فون کرکے دھمکیاں دی گئیں۔ پتلے جلائے گئے۔ اور بھی بہت کچھ ہوا۔
یہ سب افسوس ناک تھا۔ اس زہریلی فضا میں وسیم اکرم کے لیے اگر کہیں سے ٹھنڈی ہوا آئی تو وہ وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ’کھیل کھیل ہے ہمیں نتائج کو گریس کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔‘