Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی ’ایلفی‘ جہاں جانے کے لیے لوگ پلاننگ کرتے تھے

یہ ایک شام کی بات ہے، جب دن بھر کی سورج کی تپش کو سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں اپنے دامن میں سمیٹ کر ایک دلکش منظر پیش کر رہی ہیں۔
پیلے پتھروں کی خوب صورت عمارتیں، بڑے بڑے شیشوں والی دُکانیں، صاف ستھرے چبوترے اور ان پر سجی بیت کی کرسیاں، کچھ لوگ ہیں جو خوب تیار ہیں۔
یہ لوگ اپنے گھروں سے پیدل، رکشہ سائیکل، اُونٹ اور بیل گاڑی پر سوار ہو کر ایک سڑک کنارے لگی کرسیوں پر بیٹھنے آئے ہیں۔
اِس سڑک پر آنے، بیٹھنے اور اِسے پار کرنے کے کچھ آداب ہیں، خلاف ورزی کرنے والوں پر جُرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بات ہو رہی ہے پاکستان کے ساحلی شہر کراچی کی ایلفی کی۔۔
’ایلفی‘ جو کبھی ’الفنسٹن سٹریٹ‘ کہلاتی تھی اور اِس سڑک کو کراچی کی جان کہا جاتا تھا۔
اس پر بات کرنے جب کوئی شاعر، ادیب یا تاریخ دان بیٹھتا تھا تو اس کا قلم اور الفاظ اپنے آپ جُھوم جایا کرتا تھا۔
برطانوی دور میں فوجی علاقہ ہونے کی وجہ سے سرکاری افسران، فوجی اور برطانیہ سے آئے اُن کے اہلِ خانہ اس سڑک پر عام طور پر خریداری کے لیے آیا کرتے تھے۔
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آنے والے غیرملکی اکثر خریداری کے لیے ’ایلفی‘ کا رُخ کیا کرتے تھے۔  
سندھ کے تاریخی مقامات پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری بھی اِن خوش نصیب افراد میں شامل ہیں جنہوں نے اس سڑک کی رونقیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ ’ایلفی‘ جسے اب ’زیبُ النِسا سٹریٹ‘ کہا جاتا ہے، کراچی میں خریداری کا بڑا مرکز تھی۔ یہ سڑک پاکستان کے قیام سے پہلے کی مشہور سڑک تھی۔‘
’یہاں کاروبار کرنے والے ہندو، پارسی اور انگریز تھے، البتہ یہاں دو میمن تاجروں کی بھی دُکانیں موجود تھیں۔‘
کلیم اللہ لاشاری کے مطابق ’تقسیمِ ہند کے بعد بھی اس سڑک کی اہمیت کم نہیں ہوئی تھی۔ یہاں کے بڑے بڑے سٹورز ہمیشہ سے خواتین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔‘

’یہاں سڑک صرف زیبرا کراسنگ سے پار کی جا سکتی تھی اور خلاف ورزی پر 25 پیسے جُرمانہ ہوا کرتا تھا‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

’قیام پاکستان کے بعد بھی کئی برسوں تک اس سڑک پر انگریزوں کی آمدورفت رہی ہے، اور اس سڑک پر شام ہوتے ہی جمع ہونے والے افراد کے یہاں آنے کے مقاصد میں ایک مقصد خریداری کے لیے آئے افراد کو باہر بیٹھ کر دیکھنا بھی رہا ہے۔‘
اس سڑک پر چلنے، بیٹھنے اور روڈ پار کرنے کے بھی کچھ اصول تھے۔
کلیم لاشاری کا کہنا ہے کہ ’ایلفی کے فُٹ پاتھ شام ہوتے ہی بھر جاتے تھے۔ یہاں کیفے اور مے خانے سجا کرتے تھے۔‘
’سڑک صرف زیبرا کراسنگ کے نشان سے پار کی جا سکتی تھی اور خلاف ورزی کرنے والے پر 25 پیسے جُرمانہ ہوا کرتا تھا۔‘
کراچی کی اس مشہور و معروف سڑک سے خریداری کرنے والی 89 سالہ خاتون سیدہ عالیہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس سڑک کا احوال کچھ اس انداز میں بیان کیا۔
ایک روز وہ اپنے والدین کے ہمراہ خریداری کے لیے ’ایلفی‘ پہنچیں، گھر میں شادی کی تقریب تھی اور پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت بیرونِ ملک سے مہمانوں نے شریک ہونا تھا اس لیے لباس کا بھی خاص اہتمام کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’الفنسٹن سٹریٹ میں اشیا کی قیمتیں اتنی زیادہ تھیں کہ ہم وہاں سے کچھ خاص خریداری نہیں کرسکے۔ البتہ وہاں کی دکانوں پر موجود اشیا کے بارے میں آج بھی بیان کرنا آسان نہیں ہے۔‘

کالم نگار اختر بلوچ لکھتے ہیں کہ ’اس سڑک پر موجود ایک سٹور میں داخل ہونے سے قبل لوگ اپنے جُوتے صاف کیا کرتے تھے‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہم کسی دکان میں داخل ہوتے یا باہر نکلتے تو ایک فخر سا محسوس کر رہے ہوتے تھے۔ یہ قیامِ پاکستان کے چند برسوں بعد کی بات ہے۔‘  
یاسمین لاری کے مطابق ’ایلفی ایک تاریخی سڑک ہے، یہ امیروں کی خریداری کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔‘
پرانے وقتوں کی ’ایلفی‘ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کئی بار اس سڑک پر جانا ہوا ہے۔ اس کے دونوں اطراف تعمیر کی گئیں خُوب صورت عمارتیں یہاں آنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔‘
’سورج ڈھلتے ہی ’ایلفی‘ کی رونق اور بڑھ جاتی تھی، لوگ ٹولیوں کی شکل میں اس سڑک کا رُخ کرتے تھے، چائے خانے اور ہوٹلوں پر بیٹھنے والوں کا رش ہوتا تھا، جبکہ خریداری کے لیے آئے افراد بھی بڑے اہتمام سے یہاں خریداری کرنے آتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں خواتین کے ملبوسات سے لے کر اُن کے جُوتے، بناؤ سنگھار کا سامان ہر چیز ملتی تھی۔ اس سڑک سے منسلک دیگر سڑکیں بھی تیزی سے آباد ہوگئی تھیں۔‘
’مرکزی سڑک پر موجود مہنگے سٹورز کا متبادل صدر کی دیگر مارکیٹوں کی صورت میں پروان چڑھ گیا تھا۔‘
سندھ سے تعلق رکھنے والے نامور کالم نگار اور ادیب اختر بلوچ نے اپنے کالم میں اس سڑک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’کراچی کی اِس سڑک کو لوگ پیار سے ’ایلفی‘ کہتے تھے۔‘

برطانوی دور میں سرکاری افسران، فوجی اور اُن کے اہلِ خانہ اس سڑک پر خریداری کے لیے آیا کرتے تھے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

اپنے استاد حسین نقی سے منسوب کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ ’وہ جب بھی اس سڑک کے بارے میں بات کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے کوئی عاشق اپنی معشوقہ کا ذکر کر رہا ہو۔‘
اختر بلوچ نے اپنی زندگی میں ایلفی پر جو تحریر لکھی اس میں انہوں نے یہاں تک بیان کیا ہے کہ ’اس سڑک پر موجود ایک سٹور میں داخل ہونے سے قبل لوگ اپنے جُوتے صاف کیا کرتے تھے۔‘
’لباس، بال اور داڑھی درست کرکے ڈوسل کے سٹور میں جایا کرتے تھے۔ یہ ایک میمن کا سٹور تھا جہاں سندھ کے وڈیرے، پیر، میر اور دیگر نامور شخصیات خریداری کے لیے آیا کرتی تھیں۔ اس سٹور میں دھاگے سے لے کر بندوق تک کا سامان موجود ہوتا تھا۔‘  
نامور دانشور سیاست دان اور ادیب پیر علی محمد راشدی کی یادداشتوں میں بھی ’ایلفی‘ سے محبت نظر آتی ہے۔ ’ایلفنسٹن سٹریٹ‘ کے حوالے سے مختلف مقامات پر انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا ہے۔
ایلفی زیبی کب بنی؟
 ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری بتاتے ہیں کہ 26 مئی 1970 کی بات ہے۔ جب کراچی سے شائع ہونے والے اُردو کے ایک روزنامہ ’جنگ‘ میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جس کی سُرخی تھی کہ ’ایلفی زیبی ہو گئی۔‘

کلیم لاشاری کا کہنا ہے کہ ’ایلفی کے فُٹ پاتھ شام ہوتے ہی بھر جاتے تھے اور یہاں کیفے سجا کرتے تھے‘ (فائل فوٹو: فِلکر)

ان کا کہنا ہے کہ ’قیام پاکستان کے بعد جس طرح مختلف ادوار میں پاکستان کی چھوٹی بڑی سڑکوں اور علاقوں کے نام تبدیل کیے گئے اسی طرح کراچی کی ’الفنسٹن سٹریٹ‘ جو عرف عام میں ’ایلفی‘ کہلاتی تھی کا نام بھی تبدیل ہوگیا اور اسے ’زیب النسا‘ سٹریٹ قرار دے دیا گیا۔ 
’اس تبدیلی کے ساتھ ہی شہر کی رونق ’ایلفی‘ آہستہ آہستہ ماند پڑنے لگی اور اب یہ صورت حال ہے کہ جو سڑک کبھی شام ہوتے ہی سج جاتی تھی اب دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کی ایک عام سی سڑک بن کر رہ گئی ہے۔‘
 ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کے مطابق ’جہاں کچھ قدیم عمارتیں اور دکانیں تو موجود ہیں لیکن وہ ’ایلفی‘ نہیں جہاں جانے کے لیے لوگ پلاننگ کیا کرتے تھے اور خوب بناؤ سنگھار کیا جاتا تھا۔ ایک نئی عمارت کو ’ایلفی‘ کے نام سے بنایا ضرور گیا ہے لیکن اس کا شمار بھی نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔

شیئر: