Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی میں رکاوٹ بننے والی رسم، چترال میں داماد سے بندوق اور بیل کی ڈیمانڈ پر پابندی

چترال میں دلہے کی جانب سے اپنے سسرال والوں کو بھاری تحائف دینے کی رسم ہے۔ فوٹو: اردو نیوز
شادی کے دن قریب آتے ہی محمد طفیل کو سسرال کی جانب سے ممکنہ مطالبات کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ ان کے ذہن میں یہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ ’اگر بندوق کی ڈیمانڈ ہوئی تو کہاں سے لاؤں گا اور اگر بیل مانگا گیا تو اسے خریدنے کے لیے کم از کم ایک لاکھ روپے درکار ہوں گے۔‘
 محمد طفیل کے دن اسی کشمکش میں گزر رہے ہیں کیونکہ یہ رواج چترال میں عام ہے جس کو ہر صورت پورا کرنا پڑتا ہے۔
 انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے جب اپنی بہن کی شادی کی تو لڑکے والوں سے روسی ساختہ بندوق کا مطالبہ کیا تھا جبکہ 50 ہزار روپے بھی لیے تھے، اب میں کس منہ سے اس رسم کو پورا کرنے سے انکار کروں؟‘ 
’ولیمے اور شادی بیاہ کی نسبت ان غیر ضروری رسومات کی وجہ سے اخراجات دگنا ہوجاتے ہیں۔ سسرال والوں کی ڈیمانڈ کو رواج کے نام پر مجبوراً پورا کیا جاتا ہے۔ مجھے اب ان رسومات کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑے گا۔‘ 
صرف محمد طفیل ہی اس پریشانی کا شکار نہیں بلکہ اَپر چترال سے تعلق رکھنے والے شاکر اللہ بھی اسی مشکل سے گزر رہے ہیں جنہیں رسم و رواج کو پورا کرنے کے لیے قرض لینا پڑا تھا۔
انہوں نے اپنی شادی میں سسر کو نقد پیسوں کے علاوہ گاڑی بھی دی تھی۔ 
شاکر اللہ کا مؤقف ہے کہ ’لڑکوں سے مطالبات کے اس رواج کو اب ختم ہونا چاہیے، شادی ایک سنت ہے جسے رسم و رواج کے نام پر مشکل نہیں بنانا چاہیے۔‘
چترال میں یہ رواج کب سے ہے؟ 
چترالی زبان اور ثقافت کے محقق قاضی عنایت جلیل نے اس بارے میں اردو نیوز کو بتایا کہ ’داماد سے شادی بیاہ میں مطالبات کرنے کی رسم قدیم دور سے چلی آ رہی ہے۔ اس کی ابتدا کب ہوئی، کوئی بھی اس بارے میں نہیں جانتا مگر یہ ہمارے آباؤ اجداد سے چلتی آرہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ داماد سے لڑکی کا باپ یا بھائی ڈیمانڈ کرتا ہے جسے ’بار‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس رسم کو ’مل‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

چترال کی مقامی رسم کے تحت دلہا اپنے سسر کو بیل اور بندوق تحفے میں دیتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ ’گزرے زمانے میں داماد سے تلوار، گائے، بیل یا گھوڑے کا مطالبہ کیا جاتا تھا مگر اب دور جدید میں نقد پیسے، گاڑی یا پھر موبائل وغیرہ مانگا جاتا ہے۔‘
قاضی عنایت جلیل کے مطابق داماد جب ولیمے کے بعد ساس سے ملنے جاتا ہے تو الگ سے تحائف کا خرچہ برداشت کرتا ہے جبکہ ’کولی بار‘ کی رسم دلہن کے گھر والے پوری کرتے ہیں۔
 انہوں نے کہا کہ ’ان رسومات کو چترال کا ہر باسی مجبوراً پورا کر رہا ہے حالانکہ ان کا سنت یا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘ 
قاضی عنایت نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’چترال کے اس رواج کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کے لیے شادی کو سہل بنایا جاسکے۔‘
مقامی کمیٹی کی جانب سے شادی بیاہ کی رسومات پر پابندی 
اَپر چترال کے علاقے کھوت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں گاؤں کے علماء کرام، اساتذہ اور تمام طبقۂ فکر کے افراد شامل تھے۔
کمیٹی نے غیر ضروری رسومات پر پابندی لگانے کی قرار داد متفقہ طور پر منظور کی۔
کمیٹی کے رُکن مولانا سمیع اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’8 نکات پر مشتمل قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں سب سے پہلے رواج کے نام پر داماد سے پیسے لینے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس قرار داد کے تحت اب سسرال کی جانب سے دلہے سے بندوق، جانور یعنی بیل اور پیسے مانگنے پر پابندی ہوگی۔‘

چترال کے کئی جونوان شادی کی رسومات پر آنے والے بھاری اخراجات سے پریشان ہیں۔ فوٹو: فلکر

انہوں نے کہا کہ ’دعوتِ ولیمہ کے علاوہ ان رسومات کی ادائیگی پر داماد کو سات سے آٹھ لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اکثر نوجوان شادی کے بعد قرضوں میں ڈوب جاتے ہیں۔‘
مولانا سمیع اللہ کے مطابق نوجوانوں کو قرضوں کے بوجھ سے بچانے اور نکاح کو آسان بنانے کے لیے کمیٹی نے ان غیر شرعی رسومات پر پابندی لگائی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’گاؤں کے بیشتر نوجوان اس فرسودہ رواج کی وجہ سے شادی سے بھاگتے ہیں اور اکثریت کی شادی کی عمر نکل جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لڑکے کے علاوہ لڑکی سے بھی جہیز کے نام پر کسی بھی قسم کا مطالبہ کرنے پر پابندی عائد ہو گی۔ کمیٹی نے اس قرار داد میں لڑکے والوں کو بھی اس قسم کا مطالبہ کرنے سے منع کیا ہے۔‘
مولانا سمیع اللہ نے بتایا کہ ’کھوت گاؤں 25 سو گھرانوں پر مشتمل ہے جہاں اس متفقہ قرار داد کی منظوری کے بعد یہ رسومات پوری نہیں کی جائیں گی۔ کسی شہری نے اگر خلاف ورزی کی تو اس کا سماجی بائیکاٹ ہو گا۔‘ 

شیئر: