Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال میں شادی کی رسموں پر جِرگے کی پابندی کا ایک برس کیسا رہا؟

جرگے میں یہ عہد کیا گیا کہ باہمی رضامندی سے کیے گئے فیصلے پر عمل کرنا امیر اور غریب پر لازم ہو گا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
خیبرپختونخوا کے ضلع اَپر چترال کے گاؤں لاسپور میں گزشتہ برس جنوری میں مقامی جرگے نے جہیز اور شادی میں فضول خرچی پر پابندی لگا دی تھی اور اس کے بعد سے اکثر لوگ شادیاں سادگی سے کر رہے ہیں۔  
لاسپور ضلع چترال کی ایک خوب صورت وادی ہے جو چھ دیہاتوں پر مشتمل ہے اور اس کی کل آبادی تقریباً 10 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
گاؤں لاسپور کے بیشتر افراد پڑھے لکھے اور ملازمت پیشہ ہیں۔ 
اس گاؤں کے مقامی افراد نے ایک برس قبل جنوری 2022 میں ایک جرگہ بلایا جہاں شادی بیاہ کو آسان بنانے کے لیے متفقہ طور پر ایک قرارداد پاس ہوئی۔ 
یہ قراردار سید صاحب جمال کی سربراہی میں گاؤں کے 20 سے زائد عمائدین نے منظور کی۔ 
قرارداد کے مطابق شادی بیاہ میں جہیز اور دیگر ’غیر ضروری اخراجات‘ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مقامی عمائدین نے اس قرارداد کے ذریعے شادی بیاہ میں کفایت شعاری اپنانے پر اتفاق کیا۔ 
مقامی جرگے نے شادی کی تقریبات میں کچھ دیگر سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی جن میں ولیمے اور بارات میں زیادہ مہمانوں کو دعوت دینا، موسیقی پر خرچ کرنا اور دلہن کو جہیز کی مد میں سامان دینا شامل ہے۔ 
مقامی جرگے میں اتفاق رائے سے پاس کی گئی یہ قرارداد علاقے کے زعماء نے ضلعی انتظامیہ اپر چترال کو بھی پیش کیا۔ 
مقامی لوگوں کے جرگے میں یہ عہد کیا گیا کہ باہمی رضامندی سے کیے گئے اس فیصلے پر عمل کرنا امیر اور غریب پر یکساں طور پر لازم ہو گا بصورت دیگر اس قرار داد کے مطابق سزا ہو گی۔ 

لاسپور ویلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد بیش تر شادی تقریبات سادگی سے منعقد ہوئیں۔ (فوٹو: فلکر)

جرگے کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کی سزا کیا طے پائی؟ 

قرارداد کے مطابق جرگے  کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے گی۔ ایسے خاندان کی خوشی میں علاقے کے لوگ شریک نہیں ہوں گے اور اس شخص کو ہر اچھے برے وقت میں سماجی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

جرگے کا فیصلہ لوگوں کے لیے کتنا مُفید ثابت ہوا؟ 

مقامی نوجوان انوار الملک اور ان کے بھائی کی شادی اس قرارداد میں طے پانے والے ضوابط کے تحت ہوئی تھی۔ جس کے بارے میں انوار الملک نے اردو نیوز کو بتایا کہ قرارداد کے مطابق شادی کے انتظامات نہایت سادگی سے کیے گئے، صرف قریبی رشتے داروں کو مدعو کیا اور ہر قسم کی فضول خرچی سے اجتناب کیا گیا۔‘  
انوار الملک کا کہنا ہے کہ ’اگر پرانی روایت کے مطابق شادی کرتے تو ہم دونوں بھائیوں کی شادی پر کم سے کم آٹھ لاکھ روپے تک کا خرچ آتا لیکن علاقے کے نئے دستور کی وجہ سے ایک لاکھ روپے میں شادی ہو گئی۔
لاسپور گاؤں کے سماجی کارکن امیر نیاب کہتے ہیں کہ جرگے کے فیصلے کی وجہ سے مہنگائی کے دور میں شادی بیاہ بہت آسان ہوا۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہا ’ہمارے خاندان میں بیٹیوں کی رخصتی کے وقت جہیز دیا گیا اور نہ ہی لڑکے سے کوئی مطالبہ ہوا۔‘ 
امیر نیاب کے مطابق ’گاؤں کے 80 فیصد رہائشیوں نے جرگے کے فیصلے کے مطابق شادیاں کرنا شروع کر دی ہیں کیونکہ ہر کوئی آسانی چاہتا ہے۔‘ 

چترال سے باہر لڑکی کی شادی کے لیے لڑکے کو اپنا کیریکٹر سرٹیفکیٹ دکھانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: فلِکر)

چترال اور دیگر علاقوں کی شادیوں میں فرق 

پاکستان کے بیشتر علاقوں میں شادی کے وقت لڑکی کو جہیز کی صورت میں سونے کا زیور اور سامان دینے کی روایت عام ہے لیکن  چترال میں یہ روایت بالکل اس کے برعکس ہے۔ 
سماجی ورکر امیر نیاب نے بتایا کہ ’چترال میں شادی کرنے کے لیے لڑکی کے خاندان والے جہیز دینے کے پابند نہیں بلکہ چترال کی یہ روایت رہی ہے کہ لڑکی کے خاندان والے اپنی مرضی کے مطابق لڑکے سے پیسے مانگیں گے۔‘ 
’پیسوں کے علاوہ لڑکی کے رشتے داروں کے لیے کپڑے اور جوتے بھی دُلہے کے گھر سے آنا ضروری ہیں۔‘ 
’یہی نہیں دلہن کے گھر والوں کی جانب سے دلہے سے مال مویشی اور بندوق کی فرمائش کرنا بھی رواج کا حصہ ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’ایسے رسوم و رواج کی حوصلہ شکنی کرنی چاہییے کیونکہ ہمارے یہاں بیشتر نوجوان اس رسم کی وجہ سے لاکھوں روپے کے مقروض ہو جاتے ہیں۔‘  

پاکستان میں شادی کی دعوت پر کھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جرگے کے فیصلے کی خلاف ورزی پر کسی کو سزا ہوئی؟ 

لاسپور ویلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد بیش تر شادی تقریبات سادگی سے منعقد ہوئیں۔ چند ایک گھرانوں نے جرگے کے فیصلے کی خلاف ورزی کی جس پر بعد ازاں ان افراد نے جرگے کے عمائدین سے معافی مانگی اور آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ 
واضح رہے کہ چترال سے باہر لڑکی کی شادی کے لیے لڑکے کو اپنا کیریکٹر سرٹیفکیٹ دکھانا لازمی قرار دیا گیا ہے جس کے لیے خیبرپختونخوا اسمبلی سے باقاعدہ ایک قرارداد بھی منظور ہوئی تھی۔

شیئر: