بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب نواز شریف لاہور واپس پہنچ گئے۔ ان کی لاہور آمد پر ان کی پارٹی نے انہیں ایک بھرپور جلسے سے خوش آمدید کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے انتظامات بھی ویسے ہی کیے۔
چار سال قبل 2019 نومبر کے مہینے میں نواز شریف لاہور ایئرپورٹ سے قطر ایئرویز کے جہاز پر سر جھکائے اکیلے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو پورا ملک یہ مناظر دیکھ رہا تھا۔ یقنناً ان کو اندازہ نہیں ہو گا کہ چار سال بعد ان کی واپسی شاہی قلعے کے شاہی مرغزاروں میں ہیلیپیڈ پر ہو گی۔
مزید پڑھیں
-
آج ن بھی یہاں ہے اور ش بھی یہیں کھڑی ہے: مریم نوازNode ID: 805371
-
میرے دل میں بدلے اور انتقام کی کوئی تمنا نہیں ہے: نواز شریفNode ID: 805471
مینار پاکستان پر مسلم لیگ ن نے اپنی تمام تر طاقت صرف کر دی تھی یا کم از کم یہ تاثر ضرور دیا گیا۔ جلسے کی کوریج کے لیے گاڑی کو ناصر باغ کے قریب یہ سوچ کر پارک کیا کہ اگر واقعی جلسہ بڑا ہوا تو واپسی مشکل ہو گی۔
اسی تدبیر کے لیے پھر یہ چھ کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑا۔ سہ پہر تک جلسہ گاہ میں صرف انتظامات ہی دکھائی دے رہے تھے جو چیز سب سے نمایاں تھی وہ ضلعی انتظامیہ کی پھرتیاں تھیں۔
صفائی کا محکمہ، پولیس، سرکاری ڈسپنسری، ٹریفک پولیس اور ایمرجنسی سروس کے کارندے، سب اس جلسے کے شرکا کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کے لیے مستعد دکھائی دے رہا تھے۔
دوسری جانب فضا میں ہیلی کاپٹر اور سیسنا جہاز بار بار چکر لگا رہے تھے۔
سہ پہر کو جب لوگ جلسہ گاہ میں آنا شروع ہوئے تو انٹرنیٹ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا کیونکہ لوگوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے سگنل کمزور ہو گئے تھے اور یہ عموماً رش والی جگہوں پر ہو جاتا ہے۔
اس وقت تک کارکنان کی تعداد متاثرکن نہیں تھی۔ بادشاہی مسجد کے عقب میں فوڈ سٹریٹ کے پاس فیس بک لائیو شروع کیا تو اس کو توقع سے زیادہ لمبا کرنا پڑا کیونکہ لاہور کی گلیوں سے لیگی کارکن پیدل اتنی تعداد میں آرہے تھے کہ 15 منٹ تک لائیو رہنا پڑا۔

اسی دوران نواز شریف کا ہیلی کاپٹر بھی شاہی قلعہ لینڈ کر چکا تھا۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی سٹیج پر پہنچ چکے تھے لیکن کارکنوں کی آمد اب ایک متاثر کن صورت حال میں بدل چکی تھی۔
ن لیگ کی تبدیل شدہ پالیسی
اس جلسے کے انتظامات سے لے کر ہر چیز میں دو چیزیں نمایاں تھیں۔ ایک یہ کہ مسلم لیگ ن نے بدلتے رجحانات سے بہت کچھ سیکھا ہے اور دوسرا یہ کہ کچھ بھی ہو جائے لیگی چھاپ اور رنگ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔
جلسے میں لگی سات بڑی سکرینیں، نغموں کی موسیقی میں ہیجان خیزی، سٹیج پر ڈسکو لائیٹیں، نوجوانوں کو صف اول میں رکھنا، جدید پروڈکشن اور بہترین ڈی جیز کا انتخاب۔ اس سے واضع تھا کہ مسلم لیگ ن بھی ارتقا کی منازل میں ہے۔
لیکن اس کے باوجود لیگی کارکنوں کا سہل پن اور نہ ہونے کے برابر جوشیلہ پن انہیں اپنی چھاپ برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اور سینچر کے جلسے میں بھی یہی تھا۔
نواز شریف جب شاہی قلعے سے سٹیج تک پہنچے تو طاقتور پروڈکشن ٹیم نے بیک سٹیج تک کئی کیمروں اور ڈرونز سے لمحہ بہ لمحہ بڑی سکرینوں پر دکھایا اور پھر نواز شریف سٹیج پر پہنچ گئے۔
سٹیج پر جب وہ مریم نواز سے گلے ملے تو باپ بیٹی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ بڑی دیر تک یہ جذباتی مناظر جاری رہے اور اتنی دیر ہی فضا آتش بازی سے گونجتی رہی۔

شام کے سات بج چکے تھے، جلسہ گاہ بھر چکی تھی اور لوگوں کی آمد تھمنے میں نہیں آ رہی تھی۔ آزادی چوک کے پل پر کھوے سے کھوا چل رہا تھا۔ ٹیکسالی تک پیدل چلنا دشوار تھا اور داخلی دروازے رش سے جام ہو چکے تھے۔
یہ ن لیگ کا حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا اکٹھ بن چکا تھا۔ جتنے لوگ جلسہ گاہ میں داخل ہو رہے تھے اتنے ہی نکل رہے تھے۔
نواز شریف کی تقریر شروع ہو چکی تھی ایک ٹولی باہر نکل رہی تھی جب ان سے پوچھا کہ تقریر تو اب شروع ہوئی ہے آپ کہاں جا رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’ہم تو صرف نواز شریف کی شکل دیکھنے آئے تھے، وہ دیکھ لی اندر لوگ زیادہ ہو گئے ہیں دم گھٹ رہا تھا اس لیے باہر آ گئے، تقریر سوشل میڈیا پر دیکھ لیں گے۔‘
ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جلسے کے انتظامات کم پڑ گئے ہیں اور کارکن جلسہ انتظامیہ کی توقع سے کہیں زیادہ آ گئے ہیں۔
نواز شریف کا کارکنوں سے دل کا حال
جلسے کی تقریب کا باقاعدہ آغاز بھی سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ جیسے پی ٹی وی پر کسی وزیراعظم کی تقریر کا رن ڈاؤن ہوتا ہے۔ پہلے قومی ترانہ پھر قرآن کی تلاوت اور پھر تقریر۔ ن لیگ کافی دنوں سے یہ تاثر دے رہی تھی کہ نواز شریف اپنا بیانیہ مینار پاکستان پر دیں گے۔
نواز شریف نے گذشتہ مہینے لندن سے سابق ججوں اور جرنیلوں پر تنقید کی تھی اور تاثر تھا کہ شاید وہ ان ناموں کو دہرائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ان کے لہجے میں توانائی جھلک رہی تھی لیکن وہ محاذ آرائی کے موڈ میں نہیں تھے۔ انہوں نے بار بار اپنی تقریر میں کہا کہ وہ کسی سے بدلہ نہیں لیں گے۔
