میرے دل میں بدلے اور انتقام کی کوئی تمنا نہیں ہے: نواز شریف
میرے دل میں بدلے اور انتقام کی کوئی تمنا نہیں ہے: نواز شریف
ہفتہ 21 اکتوبر 2023 19:33
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ’میرے دل میں بدلے اور انتقام کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ آئین پر عمل درآمد کرنے والے ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔‘
نواز شریف سنیچر کو چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد مینارِ پاکستان گراؤنڈ پر جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ ’میری دعا ہے کہ اللہ کبھی میرے دل میں انتقام کا جذبہ نہ لے کر آنا۔ میں اس قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جو میں نے پہلے بھی کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میری تمنا یہی ہے کہ میری قوم کے لوگ خوش حال ہو جائیں، ان کے گھروں میں خوشیاں آجائیں ان کے گھروں میں خوش حالی آجائے، ان کے گھروں میں روشنیوں کے چراغ جلیں۔‘
’ان کو روزگار ملے ان کو ایک باعزت پاکستانی بننے کا موقعہ ملا۔ نواز شریف چاہتا ہے کہ بے روزگاری نہ ہو غربت نہ ہو بیماری نہ ہو، جہالت نہ ہو۔‘
نواز شریف نے ایک شعر سناتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں نہ چھیڑو ورنہ ہمارے اتنے آنسو نکلیں گے کہ طوفان آجائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں مریم بیٹھی ہے پوچھیں اس سے کہ وہ اذیت کا لمحہ کیسے کوئی بھلا سکتا ہے جب اسے اپنے قیدی باپ کے سامنے گرفتار کیا جا رہا تھا۔‘
’میں کوٹ لکھپت جیل میں قیدی تھا بند تھا اور نیب والے آکر میری آنکھوں کے سامنے اسے گرفتار کر کے لے جانا چاہ رہے تھے۔‘
نواز شریف نے کہا کہ ’مریم میرے پاس آئی کہ ابو جان یہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں میں کیا کروں؟ میں نے کہا ایک قیدی کیا کر سکتا ہے، گرفتار کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ ’شہباز شریف کو بھی جیل میں بند کر دیا، بیٹوں کو بھی بند کر دیا۔ یہ رانا ثنااللہ اور حنیف عباسی کو سزائے موت دینے کے چکر میں تھے۔‘
’انہوں نے خواجہ سعد رفیق کو دو سال جیل میں بند رکھا۔ 1990 سے لے کر آج تک یا تو میں ملک سے باہر یا جیل میں یا پھر مقدمے بھگتتا رہا۔‘
ریاستی اداروں، جماعتوں اور ریاست کے ستونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا: نواز شریف
نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پوچھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے اندر ایک دور گزرا ہے، اس دور کا ایک کوئی کارنامہ یا منصوبہ بتا دو؟‘
انہوں نے کہا کہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا بیانیہ کیا ہے؟ ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو اورنج لائن سے پوچھوں جو شہباز شریف نے بنائی۔ کراچی کی گرین لائن سے پوچھوں۔ ہمارا بیانیہ پوچھنا ہے تو میٹرو بس سے پوچھو۔‘
’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے اسباب پر غور کریں اور آئین کی روح کے مطابق متحد ہو کر مستقبل کا پلان بنائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے آئین پر عمل درآمد کرنے والے ریاستی ادارے، جماعتیں اور ریاست کے ستونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘
’اگر ہم دنیا میں کوئی منفرد مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب کو مل کر کام کرنا ہو گا، اس کا واحد حل یہی ہے میں آپ کو 40 برسوں کا نچوڑ بتا رہا ہوں اس کے بغیر یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘
سابق وزیراعظم کے مطابق ’آئین پر عمل درآمد کرنے کے لیے سب کو اکٹھا ہونا ہو گا، وہ بنیادی مرض دور کرنا ہو گا جس کی وجہ سے ملک بار بار حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔‘
میری والدہ اور بیوی میری سیاست کی نذر ہو گئیں: نواز شریف
نواز شریف نے اپنے خطاب میں اپنی قید اور خود ساختہ جلا وطنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میری ماں اور بیوی میری سیاست کی نذر ہو گئیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج آپ کی محبت دیکھ کر سارے دُکھ درد بھول گیا ہوں۔ میں یاد بھی نہیں کرنا چاہتا لیکن میرے بھائیو کچھ دکھ درد ایسے ہوتے ہیں جو انسان بھلا تو نہیں سکتا لیکن ایک طرف رکھ سکتا ہے۔‘
’کچھ دُکھ درد ایسے ہوتے ہیں جو انسان کچھ دیر کے لیے فراموش کر سکتا ہے لیکن کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے۔‘
مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ ’آپ جانتے ہیں یہ جو کاروبار ہے یا مال ہے، یہ چلا جاتا ہے تو پھر آجاتا ہے لیکن جو اپنے پیارے آپ سے جُدا ہو جاتے ہیں وہ کبھی واپس نہیں آتے۔‘
’آج میں سوچ رہا تھا کہ میں جب بھی کبھی باہر سے آتا تھا اور گھر پہنچتا تھا تو میری والدہ اور میری بیوی کُلثوم میرے استقبال کے لیے دروازے پر کھڑی ہوتی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج جب میں جاؤں گا تو وہ دونوں نہیں ہوں گی۔ وہ میری سیاست کی نذر ہو گئیں۔ میں نے سیاست میں انہیں کھو دیا، وہ مجھے دوبارہ نہیں ملیں گی۔ یہ بہت بڑا زخم ہے جو کبھی بھرے گا نہیں۔‘
ہمسایوں کے ساتھ لڑائی کر کے ترقی نہیں کر سکتے: نواز شریف
سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے کس طرح کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ڈبل سپیڈ کے ساتھ دوڑنا ہو گا، ہمیں ہاتھوں میں پکڑا کشکول ہمیشہ کے لیے توڑنا ہو گا، ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا۔‘
’کس طرح اپنی قومی غیرت اور وقار کو بلند کرنا ہو گا، کس طرح پاکستان کے اندر بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ کس طرح ایک باوقار اور فعال خارجہ پالیسی بنانا ہو گی۔ کس طرح اپنے ہمسایوں اور دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنا ہو گا۔‘
مسلم لیگ ن کے قائد کے مطابق ’ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ لڑائی کر کے ترقی نہیں کر سکتے۔ ہمیں سب کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔ اور کشمیر کے حل کے لیے بھی بہت باوقار تدبیر کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔‘
’اگر مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہو گیا ہوتا تو آج اس کے اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک اکنامک کوریڈور بن گیا ہوتا جس کو انڈیا بھی راستہ دیتا۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ’مغربی پاکستان اس وقت کے مشرقی پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی کرتا لیکن ہم نے تو کہا کہ یہ مشرقی پاکستان کے رہنے والے کون لوگ ہیں۔‘
’یہ تو پٹ سن اگاتے ہیں اور ہمارے اوپر بوجھ ہیں۔ ہم نے اس بوجھ کو اتار کر زمین پر مارا۔ آج دیکھ لیں وہی مشرقی پاکستان ترقی میں آپ سے آگے نکل گیا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمیں یہ صورت حال منظور نہیں ہے۔ یہ مسلم لیگ ن کو منظور نہیں ہے، یہ نواز شریف کو منظور نہیں ہے، یہ نواز شریف کے ووٹرز اور سپورٹرز کو منظور نہیں ہے، یہ پاکستانی عوام کو منظور نہیں ہے۔ ہم نے اس صورت حال سے باہر نکلنا ہے۔‘
’ہم نے اپنے معاملات کو ٹھیک طرح سے چلانا ہے۔ میرا دل زخموں سے چُور ضرور ہے دل درد سے بھرا ضرور ہے، لیکن آج میں آپ کے ساتھ مل کر رب سے دعا کر رہا ہوں میرے دل میں رتی برابر بھی بدلے کی یا انتقام کی خواہش نہیں ہے بس تو اس قوم کی تقدیر بدل دے۔‘
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’عمر کے اس حصے میں میری آرزو ہے کہ ایک بدلا ہوا پاکستان دیکھوں۔ میں آج یہاں آپ کو جگانے آیا ہوں، آگے بڑھو اور پاکستان کو سنبھالو اور آئندہ کسی کو اجازت نہ دینا کہ آپ کے ملک کے ساتھ کھلواڑ کر سکے آپ کے ملک کے ساتھ یہ سلوک کر سکے۔‘
’میں نے آج بہت ضبط اور صبر سے کام لیا ہے۔ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جو میں سمجھتا ہوں مجھے نہیں کرنا چاہیے تھی۔‘
جلسے کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق نوازشریف نے اپنے خطاب میں ملک کو بحرانوں اور عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نجات دلانے کے لیے 9 نکاتی ایجنڈا دیا۔ ایجنڈے کے نکات یہ ہیں۔
1۔ سرکاری اور انتظامی اخراجات میں کمی
2۔ آمدنی/ محصولات میں اضافہ/ ٹیکس کے نظام میں بنیادی اصلاحات
3۔ برآمدات میں اضافے کے لئے فوری اور ہنگامی نوعیت کے اقدام
4۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب
5۔ توانائی (بجلی گیس) کی قیمتیں کم کرنا
6۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی انتظام کاری