سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالفین اس میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟
سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالفین اس میں کیوں شامل ہو رہے ہیں؟
جمعہ 27 اکتوبر 2023 15:36
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پیپلز پارٹی مخالف تحریک کے پیش نظر آصف علی زرداری نے سندھ کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا (فوٹو: اے ایف پی)
عام انتخابات کے نزدیک آتے ہی سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ ہونے لگا ہے اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ میں مصروف ہوگئی ہیں۔
صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد کو کمزور کرنے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں سابق صدر آصف علی زرداری کا سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کی ان کوششوں کے باعث ہی یہ اتحاد کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے جیسے کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے اراکین اسمبلی سمیت مسلم لیگ ن سندھ کے کئی اہم رہنما بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔
سیاسی جماعتیں ایک جانب تو آئندہ انتخابات سے قبل نئے اتحاد بنانے کی کوششیں کر رہی ہیں تو دوسری جانب الیکٹیبلز بھی نئے آشیانے تلاش کررہے ہیں۔
پاکستان مسلم ن کے سربراہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ ن پنجاب سمیت تمام صوبوں میں سرگرم ہوئی ہے جن میں سندھ بھی شامل ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اب اپنے ماضی کی اتحادی مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتی نظر آرہی ہے۔
سندھ میں شدت پکڑتی پیپلز پارٹی مخالف تحریک کے پیش نظر سابق صدر آصف علی زرداری نے سندھ کی اہم شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے پہلے مرحلے میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے مضبوط امیدوار علی گوہر خان مہر سے کامیاب ملاقات کی۔ سابق صدر سے ملاقات کے بعد علی گوہر خان مہر نے باقاعدہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے علی گوہر خان مہر کی پارٹی میں شمولیت کی ویڈیو اور تصاویر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے جاری کی ہیں جن میں سابق صدر علی گوہر خان مہر سے ملاقات کر رہے ہیں اور اس موقع پر سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر حسین شاہ بھی موجود تھے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کو سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف مضبوط اتحاد بنتا ضرور نظر آرہا تھا، لیکن حالیہ دنوں میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں بااثر سیاسی شخصیات کو اپنے ساتھ ملالیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس سے اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی صورت حال ایک بار پھر مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم جب تک الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں ہوجاتا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘
واضح رہے کہ سابق رکن صوبائی اسمبلی علی گوہر خان مہر مرحوم وفاقی وزیر سردار علی محمد مہر کے بھائی ہیں اور سندھ کے علاقے گھوٹکی سمیت دیگر علاقوں میں اپنا کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اس سے قبل گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی غوث بخش مہر نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں پی پی کے ایک وفد نے غوث بخش مہر سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔
غوث بخش مہر کا کہنا تھا کہ ’میں سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔ مجھ سمیت شہریار مہر اور عارف مہر بھی آج سے پیپلز پارٹی کا حصہ ہوں گے۔‘
ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’گھوٹکی سے علی گوہر مہر ایک بااثر شخصیت ہے اور ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پیپلز پارٹی کو فائدہ ہوگا اسی لیے ان سے ملنے سابق صدر آصف علی زرداری خود گئے اور ون آن ون ملاقات کی۔‘
مسلم لیگ ن کے اہم رہنما پیپلز پارٹی میں شامل
پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے کمزور ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف جی ڈی اے کے اراکین کو ہی اپنی جانب متوجہ نہیں کیا بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اہم رہنما بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔
سندھ میں حال ہی میں تنظیم سازی مہم چلانے والی مسلم لیگ ن بھی پیپلز پارٹی کی مفاہمت کی پالیسی کا شکار ہوئی ہے۔
پی ایم ایل ن سندھ کے نائب صدر جاوید ارسلان نے اپنی پارٹی کو خیرباد کہتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
کراچی ضلع ملیر پی ایس 89 سے ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر جاوید ارسلان کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی کی عوامی خدمات کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انہوں نے اپنی سابقہ جماعت مسلم لیگ ن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’پی ایم ایل ن نے سندھ کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے، پارٹی کی جانب سے صوبے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے کارکنوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔‘
سندھ میں پی پی مخالف اتحاد
متحدہ قومی موومنٹ، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور جمیعت علمائے اسلام ف کی جانب سے اتحادی حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بعد ازاں ملک کے بڑے سیاست دانوں کی متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ملاقات میں جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو شامل نہ کرنے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے سندھ کا ہنگامی دورہ کیا تھا اور پیپلز پارٹی مخالف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
ان ملاقاتوں کے بعد سندھ میں جے یو آئی آئی ف مسلسل پیپلز پارٹی مخالف اتحاد بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔
تینوں جماعتوں کے رہنماوں کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں اور رواں ماہ کے آغاز پر تینوں جماعتوں میں آئندہ انتخابات میں مشترکہ لائے عمل بناتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ وہ ’سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف سوچ رکھنے والی جماعتوں کو ایک پلٹ فارم پر جمع کر رہے ہیں، کوشش ہے کہ سندھ میں کئی برسوں سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی سے عوام کی جان چھڑوائی جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں بسنے والی عوام پیپلز پارٹی کی نااہلی کا شکار ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایم کیو ایم پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور جے یو آئی سندھ میں آئندہ انتخابات میں ایک بڑی قوت کے طور پر نظر آئیں گی۔‘
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف نے بتایا کہ ’سندھ میں کافی عرصے سے پیپلز پارٹی کا متبادل لانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور کہیں ایسا بھی لگتا ہے کہ طاقتور حلقوں کی بھی یہ خواہش ہے کہ سندھ میں کوئی مِلاجُلا نظام چلے۔‘
پیپلز پارٹی مخالف اتحاد ہمیشہ بنتے رہے ہیں
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف ہر دور میں اتحاد بنتے رہے ہیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کی سرگرمیاں تیز ہونے پر پیپلز پارٹی نے بھی روٹھوں کو منانے اور سندھ کی بااثر شخصیات کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔
سابق صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف کئی اتحاد بن چکے ہیں، عوام نے پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کو ہمیشہ ووٹ کے ذریعے جواب دیا ہے اور اس بار بھی عام انتخابات میں عوام انہیں جواب دیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی قومی سطح کی جماعت ہے اور ہم ملک بھر میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عوام پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری پر اعتماد کرتے ہیں اور انہیں ووٹ دیتے ہیں جس کی ایک مثال سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی صورت میں موجود ہے۔‘
’اور صرف کراچی ہی میں نہیں بلکہ حیدر آباد سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں بھی پہلی بار پیپلز پارٹی کے امیدوار میئر اور ڈپٹی میئر منتخب ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں کئی سیاسی رہنما اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شریک ہورہے ہیں۔ یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ہی عوامی مسائل کا حل ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوگی اور عوام کی خدمت کے سفر کو جاری رکھے گی۔‘