Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانوں کی ملک بدری، کراچی میں مقیم بنگالیوں اور برمیوں کا مستقبل کیا ہے؟

حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو واپسی کے لیے دی گئی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ان کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔
اس فیصلے کے بعد جہاں افغان شہری پریشان ہیں وہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں رہنے والے بنگالیوں اور برمیوں سمیت دیگر قومیتیں بھی بے یقینی کا شکار ہیں، اپنے مخصوص رہن سہن، کھانے، پہناوے سمیت مختلف طرز پر زندگی گزارنے والے اب اپنی شناخت پر بھی بات کرنے سے کترا رہے ہیں۔
کئی دہائیوں سے بڑی تعداد میں بنگالی، برمی اور افغان شہری بنگالی پاڑہ، مچھر کالونی اور فشریز کے اطراف کے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ علاقے یہاں رہنے والوں کے طرز زندگی کی وجہ سے اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔
کراچی بندرگاہ اور نیٹی جیٹی پل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر آئی سی آئی بریج پار کرنے پر محمدی کالونی عرف مچھر کالونی کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ یہ علاقہ کراچی میں بنگالیوں کی آبادی والا سب سے بڑا علاقہ ہے۔  
اس علاقے میں آج بھی مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کی جھلک نظر آتی ہے، یہاں کی دکانیں، کاروبار، پکوان، کپڑے اور خاص کر مچھلی کی مختلف اقسام اور اسے فروخت کرنے کا منفرد انداز پورے شہر میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا۔ 
اس علاقے کی گلیاں تنگ ہیں، یہاں رہنے والے نوجوان شلوار قمیض پہننے کو ترجیح دیتے ہیں، خواتین کی اکثریت کالے رنگ کا برقع پہنتی اور نقاب کرتی ہیں۔
یہاں بزرگ شہری پینٹ شرٹ کی طرز پر قمیض اور اس کے ساتھ دھوتی (جسے لُنگی کہا جاتا ہے) باندھتے ہیں اور سر پر جالی والی ٹوپی پہنتے ہیں۔  
تنگ گلیوں کے دونوں اطراف چھوٹی بڑی دکانیں ہیں جن میں بیشتر دکانیں پان، چھالیہ اور تمباکو فروخت کرنے والوں کی ہیں۔
علاقے میں ایک بڑی مچھلی مارکیٹ ہے، اس علاقے کی ہر گلی کے کونے پر مچھلی فروخت کرنے والوں کے چھوٹے بڑے سٹالز موجود ہیں۔
یہ علاقہ عُرفِ عام میں مچھر کالونی کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ اس کا اصل نام محمدی کالونی ہے۔ علاقے کی مرکزی جگہ شکور مارکیٹ ہے جہاں سے علاقے میں ہر جانب جانے کا راستہ ملتا ہے۔
اس کے علاوہ مری چوک، صدام چوک، راجا چوک اور اخلاص چوک پر چھوٹی بڑی مارکیٹیں موجود ہیں جہاں ضروریاتِ زندگی کا سامان میسر ہے۔

بنگالی پاڑہ، مچھر کالونی اور فشریز کے اطراف کے علاقوں میں بڑی تعداد میں بنگالی، برمی اور افغان رہائش پذیر ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

اس علاقے میں ایک جمعہ بازار بھی لگتا ہے جس میں خریداری کے لیے اردگرد کے علاقوں کے رہائشی بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔  
محمد ابراھیم کی عمر 61 سال ہے اور وہ شکور مارکیٹ کے قریب کئی دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں، وہ ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں اور آج بھی اپنے بچوں کے ساتھ شکار کے لیے کُھلے سمندر میں جاتے ہیں۔
محمد ابراھیم کا تعلق ایک بنگالی گھرانے سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم بنگالی زبان بولتے ہیں، ہمارا رہن سہن بنگالی ثقافت کے مطابق ہے لیکن ہماری شناخت پاکستانی ہے۔ ہمارے آباؤاجداد نے اس ملک کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔‘
’ہم اُس وقت سے پاکستانی ہیں جب پاکستان وجود میں بھی نہیں آیا تھا، آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے لے کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی تک ہم نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ پاکستان کا ہی ساتھ دیتے رہیں گے۔‘

کراچی میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے علاوہ بنگالیوں اور برمیوں سمیت دیگر قومیتیں بھی پریشان ہیں (فائل فوٹو: عرب نیوز)

محمد ابراھیم نے مزید کہا کہ کچھ دنوں سے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو واپس بھیجنے کی بات  کی جا رہی ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سے افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔
’اسی دوران یہ بات بھی سننے کو ملی کہ صرف افغانستان والوں کو نہیں بلکہ بنگالیوں اور برمیوں کو بھی پاکستان سے واپس بھیجا جائے گا۔‘
ان کے مطابق ’ان خبروں کی وجہ سے علاقے میں عجیب سا ماحول ہو گیا ہے۔ علاقے کی گہما گہمی ماند پڑ گئی ہے۔ پولیس کے چھاپوں اور پکڑ دھکڑ کے خوف سے لوگ علاقے سے باہر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
محمد ابراھیم کا کہنا تھا کہ ’علاقے میں کئی افراد ایسے ہیں جن کے شناختی کارڈ نادرا میں کسی نہ کسی اعتراض کی وجہ سے رُکے ہوئے ہیں اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے ابھی شناختی کارڈ کے لیے درخواست دینی ہے، سب پریشان ہو گئے ہیں۔‘ 
اخلاص چوک مچھر کالونی میں رہنے والے رفیق الدین کا تعلق برمی خاندان سے ہے، ان کا خاندان 60 کی دہائی سے پاکستان میں مقیم ہے۔
وہ اپنے چھ بچوں اور والدین کے ساتھ اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں، اور کافی عرصے سے دکان پر بچوں کی چیزیں فروخت کر کے اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔

ترجمان کراچی پولیس کے مطابق رواں سال 31 اکتوبر تک 2 ہزار 308 افغان باشندوں کو گرفتار کیا گیا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کا کہنا ہے کہ ’تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پاکستان کے سرکاری کاغذات بنانے کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ہیں۔‘
نادرا کے کارڈ بننے پر انہوں نے بھی شناختی کارڈ بنوا لیا تھا، تاہم 2017 میں کارڈ کی مدت ختم ہونے پر دوبارہ بنوانا چاہا تو نادرا کے عملے نے اعتراض لگا کر کارروائی روک دی، اس وقت سے اب تک ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم برمی ہیں، ہمارا کوئی ملک نہیں ہے، ہمارے بزرگ مشکل حالات میں ہمیں لے کر پاکستان آگئے تھے اور پھر ہم پاکستان میں رہنے لگے اور آج تک یہیں رہ رہے ہیں۔‘
رفیق الدین کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم پاکستانی ہی ہیں۔ ہمارے بچے بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور گھر پر پاکستان کا جھنڈا لگاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ پہلے افغانستان والوں کو پاکستان سے نکالیں گے، پھر بنگالیوں اور برمیوں کو نکال دیں گے، ہم یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں پاکستان سے نکال کر کہاں بھیجیں گے؟‘
’ہمارا تو اس شہر کے علاوہ کہیں اور کوئی نہیں ہے۔ ساری زندگی ہم نے ڈر ڈر کر ایک علاقے میں ہی گزار دی ہے، اب 70 سال کی عمر میں بھی یہی بات کی جاتی ہے کہ ہمیں نکال دیا جائے گا۔‘

رفیق الدین کے مطابق 2017 کے بعد ان کے شناختی کارڈ کی تجدید نہیں کی گئی (فائل فوٹو: اے پی پی)

رفیق الدین نے کہا کہ ’تو ہم کہتے ہیں ہمیں یہیں مار دیں اور دفنا دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو ملک سے نکالنے کے خوف سے چھٹکارا مل جائے۔‘
واضح رہے کہ نجی اداروں کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں افغان باشندوں کے بعد سب سے زیادہ بنگالی آباد ہیں۔
کراچی شہر میں بنگالیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد بنگالی رہتے ہیں۔‘  
شہر کے 10 سے زائد مقامات پر ان کی بڑی آبادیاں موجود ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں بنگالی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ان آبادیوں میں بنگالیوں کے ساتھ برمی بھی آباد ہیں۔ ایک جیسے رہن سہن کی وجہ سے اِن کی پہچان بھی تقریباً ایک جیسی ہی ہو گئی ہے۔  
ترجمان کراچی پولیس ریحان شاہد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پہلے مرحلے میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
’شہر کے مختلف علاقوں میں پولیس اپنے انٹیلی جنس نظام کے تحت کام کر رہی ہے۔ متعدد افراد کو پاکستان میں رہائشی دستاویزات نہ ہونے پر ہولڈنگ سینٹرز میں بھیج دیا گیا ہے۔‘

بنگالیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد بنگالی آباد ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

ان کے مطابق ’ہولڈنگ سینٹرز میں نادرا کے عملے سمیت دیگر ادارے ان کے پاکستان میں قیام کا جائزہ لے رہے ہیں اور ان کی پاکستان سے روانگی سمیت دیگر معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔‘
ترجمان کراچی پولیس کے مطابق ’رواں سال جنوری سے 31 اکتوبر تک افغان باشندوں کے خلاف 782 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 2 ہزار 308 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے 540 ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔‘ 

شیئر: