Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان کا غیرقانونی طور پر مقیم افغانوں کو مہلت دینے کا مطالبہ

افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان سے افغان باشندوں کی وطن واپسی کے لیے مزید مہلت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان حکومت نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ دستاویزات کے بغیر مقیم افغان باشندوں کو وطن واپسی کے لیے کچھ مزید مہلت دے کیونکہ ہزاروں افراد ملک بدری کے خطرے سے بھاگ کر افغانستان آرہے ہیں جس سے سرحدی چوکیوں پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ ’ملک میں 17 لاکھ افغان غیرقانونی طور پر مقیم ہیں جنہیں رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے لیے یکم نومبر 2023 کی ڈیڈلائن دی گئی تھی۔‘
حکومت پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ ’یکم نومبر کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو جبری بے دخل کردیا جائے گا۔‘
تاہم حکام نے واضح کیا ہے کہ ’رجسٹرڈ پی او آر کارڈ ہولڈرز کے غیر رجسٹرڈ کنبہ کے ارکان، جن کے پاس فیملی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ (ایف آر سی ہیں)، کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔‘ 
پاکستان کے سرحدی حکام کے مطابق ’یکم نومبر 2023 کی ڈیڈلائن دیے جانے کے بعد اکتوبر سے اب تک ایک لاکھ 30 ہزار افغان ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں جس سے کراسنگ پوائنٹس کے دونوں اطراف دباؤ بڑھ گیا ہے۔‘
قندھار کے محکمہ امور و آبادکاری مہاجرین کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران پاکستان سے سپین بولدک کے راستے 7 ہزار افغان شہری وطن واپس آچکے ہیں۔‘طالبان حکام نے پاکستان اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے کئی دہائیوں کی جنگوں اور تنازعات کے دوران ملک چھوڑنے والے لاکھوں افغان باشندوں کی میزبانی کی ہے۔
تاہم منگل کو رات گئے ایک بیان میں افغان حکام نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستانی حکام افغان باشندوں کو مختصر نوٹس پر زبردستی ملک بدر نہ کریں بلکہ انہیں تیاری کے لیے وقت دیں۔‘

افغان حکام کے مطابق ’گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران پاکستان سے سپین بولدک کے راستے 7 ہزار افغان شہری وطن واپس آچکے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے طالبان حکومت نے بیرونی ممالک میں مقیم افغانوں پر زور دیا تھا کہ ’وہ وطن واپس آجائیں۔‘
تاہم ساتھ ہی پاکستانی حکومت کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے طالبان حکام نے کہا ہے کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی سزا افغان باشندوں کو دی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے حملوں میں تیزی سے اضافے کے بعد افغانوں کی ملک بدری اس کی ’سلامتی‘ کے تحفظ کے لیے ہے۔
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان ملک میں ہونے والے ان حملوں کا الزام افغانستان سے سرگرم عسکریت پسندوں پر عائد کرتی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے ایک بار پھر حکومتِ پاکستان کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے۔
طالبان حکومت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جن ممالک میں افغان باشندے رہتے ہیں، اُنہوں نے اِن ممالک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا اور نہ ہی وہ عدم استحکام کی وجہ بنے ہیں۔‘

وزارتِ داخلہ کے مطابق ’ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی گرفتاری کا عمل شروع ہو گیا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی گرفتاری اور ملک بدری کا عمل شروع ہوگیا: ترجمان وزارتِ داخلہ
یکم نومبر کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی گرفتاری اور بعدازاں ملک بدری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔‘
وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’اب تک پاکستان میں  غیر قانونی طور پر مقیم ایک لاکھ 40 ہزار 322 غیر ملکی رضاکارانہ طور پر اپنے ممالک واپس جا چکے ہیں۔‘
’یکم نومبر کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد سے غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی گرفتاری اور بعدازاں ملک بدری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ ’غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی رضاکارانہ واپسی کا عمل جاری رہے گا اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے گی۔‘
’واپس جانے والوں اور ملک بدر کیے جانے والوں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آئیں گے اور خوراک و طبی امداد سمیت تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔‘

شیئر: