Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرق وسطٰی میں کشیدگی پھیلنے کا ’حقیقی خدشہ موجود ہے‘: حسن نصراللہ

حسن نصراللہ نے کہا کہ ’سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ معمولی لگتا ہے لیکن بہت اہم ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
لبنان میں حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطٰی میں ایک وسیع تر تنازعے کا حقیقی خدشہ موجود ہے۔ 
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انہوں نے یہ اعلان کرنے سے گریز کیا ہے کہ حزب اللہ مکمل طور پر تنازع میں داخل ہو جائے گی۔
ایران کی حمایت یافتہ ایک مضبوط فوجی قوت حزب اللہ اسرائیل سرحد کے ساتھ اسرائیلی افواج کو مصروف رکھے ہوئے ہے۔ اس نے 2006 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ کی تھی۔
حسن نصراللہ نے ایک ٹیلیویژن خطاب میں کہا کہ حزب اللہ روز بروز کشیدگی بڑھا رہی ہے اور اسرائیل کو غزہ کی پٹی اور مقبوضہ مغربی کنارے کے بجائے لبنانی سرحد کے قریب اپنی افواج رکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔
’سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ معمولی لگتا ہے لیکن بہت اہم ہے۔‘
اپنی طویل تقریر میں حسن نصراللہ نے حماس کے حملے کی تعریف کی جس میں عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل میں پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیل کے 1400 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ عظیم، بڑے پیمانے پر کیا جانے والا آپریشن خالصتاً فلسطینیوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا نتیجہ تھا۔‘ حسن نصراللہ نے کہا کہ ان کی ملیشیا کا اس حملے میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ ’بڑی رازداری نے اس آپریشن کو بہت کامیاب بنایا۔‘
حسن نصراللہ نے غزہ میں جنگ اور شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے لیے امریکہ کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ محاصرہ شدہ غزہ میں کشیدگی میں کمی علاقائی جنگ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے یمن اور عراق کے گروپوں کا شکریہ ادا کیا، جو کہ ’مزاحمت کے محور‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں شیعہ مسلم عراقی ملیشیا شامل ہیں، جو شام اور عراق میں امریکی افواج کو نشانہ بنا  رہے ہیں، اور یمن کے حوثی اسرائیل پر ڈرون حملے کر کے تنازع میں شامل ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ جمعے تک شمالی سرحد پر ان کے سات فوجی اور ایک شہری مارا گیا تھا۔ حزب اللہ کے 50 سے زائد جنگجو اور اتحادی گروپوں کے ساتھ 10 عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ روئٹرز کے ایک صحافی سمیت 10 شہری سرحد کی لبنانی جانب مارے گئے۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ جمعے تک شمالی سرحد پر ان کے سات فوجی اور ایک شہری مارا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

اسرائیل حزب اللہ کو اپنا سب سے سنگین خطرہ سمجھتا ہے، اندازے کے مطابق حزب اللہ کے پاس اسرائیل کو نشانہ بنانے والے تقریباً ڈیڑھ لاکھ راکٹ اور میزائل ہیں، اور اس کے علاوہ ڈرون اور زمین سے فضا اور سطح سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل ہیں۔
تاہم ایک مکمل تنازع حزب اللہ کے لیے بھی مہنگا پڑے گا، جس نے 2006 میں اسرائیل کے ساتھ 34 روزہ جنگ لڑی تھی جو کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوئی تھی۔ لیکن اس سے پہلے اسرائیلی بمباری نے جنوبی لبنان، مشرقی وادی بیکا اور بیروت کے جنوبی مضافات کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا تھا۔ 
ایک نئی کھلی جنگ حزب اللہ کے لاکھوں حامیوں کو بھی بے گھر کر دے گی اور ایک ایسے وقت میں وسیع نقصان کا باعث بنے گی جب لبنان چار سالہ تاریخی اقتصادی بحران کے دہانے پر ہے۔

شیئر: