خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے فیض محمد کو انڈین ریاست حیدرآباد کی پولیس نے اُس وقت گرفتار کیا جب اُن کے سسرال والے ان کے لیے جعلی دستاویزات بنوا رہے تھے۔
نیہا اس دوران انڈیا میں اپنے گھر لوٹ آئیں۔ کچھ ہی عرصے بعد فیض محمد کو بیوی اور بچے کی یاد ستانے لگی جس کے لیے انہوں نے نیپال کے راستے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا۔
وہ نومبر 2022 سے حیدرآباد کے علاقے کشن باغ میں اپنے سسرال کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ تاہم حیدرآباد میں بہادر پورہ پولیس نے 31 اگست 2023 کو کارروائی کرتے ہوئے انہیں اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ جعلی دستاویزات بنوا رہے تھے۔
دو مہینے انڈین جیل میں گزارنے کے بعد فیض محمد کی ضمانت ہو چکی ہے۔
ان کی گرفتاری کے بعد فیض محمد کے بھائی اقبال حسین نے اُردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’ان کے خاندان والے بہت پریشان ہیں۔ میں تو بس ایک فون کال کے انتظار میں ہوں کہ کب مجھے کال آئے گی اور میں اپنے بھائی کی آواز سن سکوں گا۔ میری والدہ رو رہی ہیں اور وہ کھانا بھی نہیں کھا رہیں۔‘
لیکن اب جبکہ فیض محمد کی ضمانت ہو چکی ہے تو انہوں نے انڈیا سے سب سے پہلے شانگلہ میں اپنی والدہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
اقبال حسین نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں گذشتہ روز اچانک اپنے بھائی کی کال آئی۔
انہوں نے بتایا ’فیض محمد نے بتایا کہ میں ضمانت پر رہا ہو چکا ہوں اور انڈیا میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوں۔ ہمارے گھر میں فیض کی والدہ، بہن اور باقی سب خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ ہمیں ایسی کال کی توقع نہیں تھی۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسے ہوا۔‘
اقبال حسین بتاتے ہیں کہ ’اُن کے ہاں اس خبر کے بعد جشن کا سماں ہے۔ گاؤں بھر سے لوگ ان کے گھر مبارکباد دینے کے لیے آرہے ہیں۔ یہ خبر جیسے ہی گاؤں میں پھیلی تو گاؤں والے ہمارے گھر آنا شروع ہو گئے۔ سارا دن لوگ آتے رہے، اب بھی کئی لوگ ہمارے پاس مبارکباد دینے کے لیے آرہے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی والدہ اور فیض محمد کے مابین ہونے والی گفتگو کے بارے میں بتایا کہ ’والدہ اس قدر خوش تھیں کہ اُن سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ جب ضمانت کی خبر ملی تو ہماری والدہ بہت خوش ہوئیں۔ ان کی خوشی ناقابلِ بیان ہے۔ وہ بتا رہی تھیں کہ جتنا ہم پریشان تھے، اب وہ اس سے 10 گنا زیادہ خوش ہیں۔‘
جب فیض محمد گرفتار ہوئے تو ان کی گرفتاری کی خبر کو انڈیا میں معمول سے زیادہ توجہ ملی۔ ان کے بارے میں جب ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام کے بس اڈے پر کام کرنے والے فیض محمد کے بھائی اقبال حسین کو معلوم ہوا تو وہ سکتے میں آ گئے تھے۔
انہوں نے بھائی کی ضمانت ہونے پر بتایا ’ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارا لڑکا جو تعلیم یافتہ ہے اور دبئی میں مزدوری کرتا ہے، وہ ایسی حرکت کرے گا۔ہم اب صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ گھر لوٹ آئے اور ہم اسے دیکھ سکیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ضمانت پر رہا ہونے کے بعد وہ اپنے بیوی بچوں سے ملا ہے۔ وہ اپنے بچے سے مل کر بہت خوش تھا۔ اُس نے ہمیں اپنے بچے اور بیوی کی باتیں بتائیں اور آج رات کو بھی اُس سے رابطہ ہو گا تو پاکستان آنے سے متعلق ہم سب مل کر کوئی فیصلہ کریں گے۔‘
فیض محمد 2018 میں دبئی گئے تھے جہاں وہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں بطور درزی کام کرتے تھے۔ وہ اپنے گھر والوں کو 30 ہزار روپے ماہانہ بھیجا کرتے تھے لیکن ان کی گرفتاری کے بعد ان کا اپنے خاندان سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔
اگست سے نومبر تک اقبال حسین کا اپنے خاندان میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
وہ بتاتے ہیں ’ہم پر یہ دو مہینے ایسے گزرے جیسے 10 برس تک ہم آگ میں جھلس رہے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ان کے بھائی فیض محمد کی ضمانت میں اُن کی بیوی نیہا فاطمہ نے بھرپور کردار ادا کیا۔مفیض محمد ابھی اپنے سسرال کے گھر میں قیام پذیر ہیں اور کاغذی کارروائی میں مصروف ہیںلیکن ہماری تسلی ہو گئی ہے کہ وہ محفوظ ہیں اور جلد اپنے وطن واپس آجائیں گے۔‘
’ہم اُن کے منتظر ہیں اور وطن واپسی پر ان کا بھرپور استقبال کریں گے۔‘