Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

متحدہ، ن لیگ اتحاد: کیا زرداری اور کپتان بھی ہاتھ ملائیں گے؟

مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے اتحاد کے اعلان کے بعد کیا آصف زرداری اور عمران خان ہاتھ ملائیں گے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
متحدہ جرمنی کے پہلے چانسلر بسمارک نے غالباً کہا تھا کہ سیاست ممکنات کا نام ہے۔ کہا تو انہوں نے درست ہی تھا لیکن اس قول کا اطلاق بالخصوص جب پاکستانی سیاست پر ہوتا ہے تو صورتحال بسا اوقات مضحکہ خیز سی ہو کر رہ جاتی ہے۔
ابھی تازہ خبر ہی دیکھ لیجیے، وہی ہوا جس کی پیشگوئی سیاسی پنڈت بدلتی سیاسی ہواؤں کے تناظر میں کر رہے تھے، یعنی پہلے ن لیگ نے کراچی میں نئی تنظیم سازی کی پھر متحدہ کے ساتھ سیاسی اتحاد کر لیا۔
متحدہ کے سیاسی ناقد اسے ’اقتدار کے بغیر نہ چلنے والی جماعت‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔
یعنی 1988 میں متحدہ کا پارلیمانی وجود باقاعدہ تسلیم ہوا تو یہ پی پی کے سنگ ہولیے، اس پہلے پارلیمانی اتحاد میں شامل امین الحق اب بھی متحدہ کے سرکردہ رہنما ہیں جو ہر سیزن میں نئے اتحاد کے رنگ و روغن  اور خوشبو و ذائقے سے ہمیشہ لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔
غلام اسحاق خان نے بی بی سرکار ختم کی تو متحدہ جو پہلے ہی سے آئی جے آئی کے ساتھ پریم پتر کے تبادلے کر رہی تھی، نواز شریف کی ہمراہ ہوئی۔
کراچی آپریشن کا آغاز ہوا تو احتجاجاً انہیں راہیں جدا کرنا پڑیں، سنہ 1993 میں جب بابا جی (غلام اسحاق خان) نے نواز سرکار ختم کی  تو سپریم کورٹ نے اسے بحال کر دیا، پھر دونوں یعنی میاں جی اور بابا جی کاکڑ فارمولے کی تاثیر سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے تو اس دور میں متحدہ نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
البتہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا، یہ وہ دور تھا جب اہل متحدہ زیر عتاب تھے، اور غالباً یہی وہ واحد دور تھا جب متحدہ اقتدار سے بوجوہ دور رہنے پر مجبور ہوئی۔ 1996 میں لغاری صاحب نے بی بی کی حکومت ختم کر دی تو 1997 کے انتخابات کے بعد متحدہ ایک بار پھر ن لیگ کے ساتھ جڑ گئی۔
1998 میں حکیم سعید کے قتل کا الزام عائد ہوا تو یہ جماعت ایک بار پھر اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔ پھر مشرف آئے تو یہ 2002 سے 2008 تک انہی کے ہو کر رہے اور خوب رہے۔

عام تاثر یہی ہے کہ متحدہ وہیں ہاتھ ملاتی ہیں جہاں اقتدارکا ہما سر بیٹھنا ہو

2008 میں اتحاد کا مزہ چکھا تو پھر 2013 میں بھی اپنے ووٹرز کے ریفرنڈم کے باوجود سال بھر کے وقفے کے بعد صوبے میں  پی پی پی کے ساتھ ہاتھ ملا لیے تھے۔ 
اور پھر2018 میں کپتان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی متحدہ نے جیسے اپنے پتے ہواؤں کے بدلتے تیور دیکھتے ہوئے خاص ترتیب کے ساتھ اتحاد میں جوڑے وہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے، اسی سکیم کے تحت یہی متحدہ اگلے سیزن میں  نہ صرف کپتان سے علیحدہ ہوئی بلکہ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر پی ڈٰی ایم سرکار  تک کی ہم جولی رہی۔
اب جیسے ہی 8 فروری کے انتخاب کا بگل بجا تو ایک بار پھر متحدہ نے آنے والے کل کی کُل سیدھی رکھنے کے لیے بروقت ن لیگ کے ساتھ ہاتھ ملا لیے ہیں۔
عام تاثر یہی ہے کہ متحدہ وہیں ہاتھ ملاتی ہیں جہاں اقتدارکا ہما سر بیٹھنا ہو۔ لیکن اب کے ایک  نہیں ان گنت سوالات اس تھیسز کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ابلاغ کے دائرے وسیع اور عام ہوچکے، اخبار اور ٹی وی کی حکمرانی سوشل میڈیا کے سامنے اپنی توانائی کھوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی نے ایک دہائی سے بالخصوص جس طرح سوشل میڈیا اور نوجوان نسل کو متحرک کیا ہے وہ روایتی سیاست اور روایتی میڈیا کے وجود کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔
ہمارے ہاں اگر مقبولیت کی بجائے قبولیت ایک استعارہ ہے تو بدلے میں نیا ڈیٹا اسی استعارے کے لیے سوال بن کر کھڑا ہوچکا ہے۔ مثلاً تقریباً ساڑھے 12 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز وہ ہیں جن کی عمر 18 سال سے 45 سال کے بیچ ہے۔ ان میں سے بھی 30 فیصد وہ ہیں جو گذشتہ تین چار برسوں میں 18 برس کے ہوئے اور پھر ووٹر بنے۔

متحدہ کے سیاسی ناقد اسے ’اقتدار کے بغیر نہ چلنے والی جماعت‘ کا طعنہ دیتے ہیں

اس بریکٹ کا ووٹر گزرے دس پندرہ سال کی سیاست اور ابلاغ سے واقف ہے، اسے 80 یا 90 کی دہائی کی سیاست یا ابلاغ سے سروکار نہیں رہا۔ روایتی سیاسی جماعتیں اس حقیقت کا ادراک کرتی ہیں نہ ہی ان کے پاس اس کا کوئی توڑ ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو مذکورہ بالا استعارے کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑا ہوتا ہے۔ اسی استعارے کے سامنے دوسرا سوال 18  سے 19 کروڑ موبائل فون صارف کھڑا کرتے ہیں جن میں سے 16 کروڑ تھری جی فور جی یا براڈ بینڈ کے صارف ہیں۔ ان موبائلوں میں موٹروے بنانے کے قصے یا بھٹو صاحب کی لیگیسی کے چرچے نہیں بلکہ جدید اپلیکیشن کے ذریعے چٹخارے دار اور سیاسی جذبات ابھارتے وی لاگز اور کپتان کی تقریریں ہیں۔
بہرحال نئی سیاسی بساط میں اگر مسلم لیگ ن اور متحدہ ایک بار پھر ایک ہوئے ہیں اور باپ کے بیشتر رہنما بلوچستان سے میاں صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں تو یہی اسی استعارے کی تصدیق ہے جس کا ذکر بار بار ہورہا ہے۔
لیکن اس کے بدلے میں زرداری صاحب کیا خاموش رہیں گے؟ کیا محض سندھ کی حد تک اقتدار پر اکتفا کرلیں گے؟ تو جواب ہے کہ وہ حصے سے زیادہ کی جستجو میں سیاسی چال کا آغاز کر چکے ہیں۔
رواں سال کے شروع میں انہوں نے جنوبی پنجاب میں ڈیرے ڈالے تو ساتھ ہی کپتان کے قریبی حلقوں کو سنجیدہ اور بامعنی روابط کے اشارے دیے۔ یہاں تک بھی کہا گیا کہ ہمارا ہاتھ تھام لو، دریا پار کروا دیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
اب پھر نئے اتحاد نے پی پی کو پی ٹی آئی کے قریب کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ لیکن کیا زرداری صاحب ایسا کریں گے؟ فطری طور پر تو ماحول ساز گار ہے لیکن غیر فطری طور پر یہ زرداری صاحب کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس کا نیا نسخہ زرداری صاحب بذریعہ بھٹنڈا ڈھونڈتے ہوئے پائے جائیں گے۔

شیئر: