کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟
کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟
بدھ 8 نومبر 2023 5:21
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
کیا نوجوان ووٹرز دیہی علاقوں میں رائج برادری ازم پر حاوی ہو سکیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انتخابی سیاست کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان کے آنے والے انتخابات میں اس پارٹی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے جس کے ساتھ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔
یہ اندازہ تازہ ووٹر لسٹوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور لوگوں کی زندگیوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کی بنیاد پر لگایا جا رہا ہے۔
تو کیا نوجوان رائے دہندگان کی بڑی تعداد ان انتخابات میں واقعی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیگی یا اس مرتبہ بھی انتخابی نتائج روایتی نظام سے متاثر رہیں گے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ نوجوان پاکستان کے زیادہ تر دیہی علاقوں میں رائج اس برادری ازم پر حاوی ہو سکیں گے جو برسوں سے امیدواروں کے انتخاب میں کلیدی کردار ادا کرتا آیا ہے؟
پاکستان کے الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں آئندہ انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 45 فیصد سے زائد نوجوان ہیں اور ان کی عمریں 35 سال سے کم ہیں۔
کل 12 کروڑ 69 لاکھ 80 ہزار 2 سو 72 ووٹرز میں سے 5 کروڑ 70 لاکھ 95 ہزار 1 سو 97 ووٹرز 35 سال سے کم ہیں جبکہ 2 کروڑ 77 لاکھ 94 ہزار سات سو آٹھ ووٹرز کی عمریں 36 سے 45 سال کے درمیان ہیں۔
’برادریاں ٹوٹنے میں صدیاں لگتی ہیں‘
پاکستان کی انتخابی سیاست کے ماہر سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا ماننا ہے کہ فروری 2024 کے انتخابات میں نوجوان ووٹرز کی بڑی تعداد نتائج کو متاثر تو ضرور کرے گی لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا جب نوجوان پاکستان میں دہایئوں سے رائج خاندانی سیاسی نظام کو بدل ڈالیں گے۔
ان کے خیال میں ایسی تبدیلی آنے میں صدیاں صرف ہوتی ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ 1970 میں بھی یہ باتیں سنائی دی تھیں کہ ملک کی سیاست سے برادری ازم کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن اس کے بعد آنے والے انتخابات میں یہ ثابت ہوا کہ پرانا نظام بدستور رائج ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ہوا زمین پر چلنے والی ہوا سے مطابقت نہیں رکھتی اور انتخابات کے نتائج میں بڑی حد تک زمینی عوامل ہی کار فرما رہیں گے جو کہ حقائق سے قریب ہوں گے۔
’زیادہ تر نوجوان ووٹ ڈالتے ہی نہیں‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب بھی محض نوجوان ووٹرز کی تعداد میں اضافے کو انتخابی سائنس میں تبدیلی کی وجہ نہیں سمجھتے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں آئندہ انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 45 فیصد سے زائد نوجوان ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وہ کہتے ہیں کہ ’انتخابات میں پہلے بھی زیادہ کردار اس پہلو کا ہوتا ہے کہ کون سا امیداوار لوگوں کے زیادہ ترقیاتی یا ذاتی کام کروا سکتا ہے اور برادری ازم چوتھے یا پانچویں نمبر پر آتا ہے۔‘
جبکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے باہر ہی نہیں نکلتی۔ ’پچھلے دو انتخابات 2013 اور 2018 میں نوجوانوں کے ووٹ ڈالنے کی تعداد بہت بڑھی ہے۔ لیکن یہ ابھی بھی بہت کم ہے۔ ووٹ رجسٹرڈ ہونے سے فرق نہیں پڑتا، ووٹ ڈالنے سے فرق پڑتا ہے۔‘
’بزرگ ووٹرز نوجوانوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں‘
گذشتہ کئی انتخابات کی بطور مبصر نگرانی کرنے والے سماجی کارکن سرور باری ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے۔
سال 2022 میں صوبہ پنجاب کے 21 حلقوں میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے تجربے کی روشنی میں ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی شہری اور دیہی آبادی اور بزرگ اور نوجوان شہریوں کی انتخابی سوچ کا فرق مٹ رہا ہے۔
’بالکل ایسی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے جیسی 1970 میں ہوئی تھی۔ بزرگ ووٹرز اپنے ہی خاندانوں کے نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں چھ فیصد بزرگ ووٹرز نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہوئے۔‘
’اسی طرح شہروں کے نوجوانوں کے خیالات قصبوں اور دیہات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی بدلتی سوچ نے شہر اور گاوں کا فرق مٹا دیا ہے۔‘
پنجاب شدید تبدیلی کی لپیٹ میں
پاکستان کی انتخابی اور حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز متفق ہیں کہ پاکستان کا روایتی انتخابی نظام ٹوٹنے کے قریب ہے۔
احمد اعجاز کے مطابق ن لیگ اور پی پی سے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان ووٹرز کی ہمدردی سمیٹنے والی ٹرین چھوٹ گئی ہے.(فوٹو: اے ایف پی)
’اس وقت ووٹ دینے کا اور ووٹ لینے کا طریقہ کار پاکستان میں بدل چکا ہے اور پنجاب اس تبدیلی کی شدید لپیٹ میں ہے۔ آنے والے انتخابات جو کہ جنوری 2024 میں متوقع ہیں میں نہ صرف نوجوان بلکہ بڑی عمر کے لوگ بھی ایک بدلے ہوئے نظریے کے تحت ووٹ ڈالیں گے۔‘
برادریوں، دھڑوں میں ٹوٹ پھوٹ
’جو سماجی تبدیلی آئی ہے وہ یہ آئی ہے کہ بزرگ بھی نوجوانوں کے ساتھ ’سیم پیج‘ پر آئے ہیں۔ اس تبدیلی میں دھڑا اور برادری ٹوٹی ہے اور وہ بڑے پیمانے پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اب برادری اور دھڑے پر انحصار نہیں ہو رہا۔ یہ میں زمینی سطح پر سینکڑوں لوگوں کے ساتھ کام کے تازہ ترین تجربے کی روشنی میں کہہ رہا ہوں۔‘
اب انفلوئنسرز کی دال نہیں گلنی
’ماضی میں انفلوئنسرز ہوتے تھے جو کسی امیدوار کے لیے ووٹ یقینی بناتے تھے۔ اگر ماضی میں چھ انفلوئنسرز 30 ہزار ووٹ یقینی بناتے تھے تو اب ان انفلوئنسرز کی تعداد چھ سے بڑھ کر 40 ہو گئی ہے اور ان میں سے کسی کے پاس بھی 200 سے زیادہ ووٹ نہیں ہیں جس کا مطلب ہے کہ برادری اور دھڑا تقسیم ہو گیا ہے۔‘
’پنجاب میں نوجوان ووٹرز کا ایک بڑا طبقہ کسی دھڑے میں نہیں بلکہ ایک جماعت کے ساتھ کھڑا ہے جس کا نام پاکستان تحریک انصاف ہے۔ یہ اب دوسری بات ہے کہ یہ لوگ اس جماعت کو ووٹ ڈال سکیں گے کہ نہیں۔‘
الیکٹیبلز کا دور خاتمے کے دہانے پر
’اس نظام کے بدلنے سے اب کوئی الیکٹیبل بھی نہیں رہا کیونکہ نیچے ڈھانچہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب کوئی گارنٹی نہیں کہ نون لیگ، پی پی پی یا استحکام پاکستان پارٹی میں جانے والا الیکٹیبل واقعی اپنی نسشست جیت سکے گا۔ اب یہ یقین دہانی نہیں کروائی جا سکتی کہ کوئی ایک جماعت کسی خاص مقام سے نشستیں جیت جائے گی جیسے کہ نون لیگ جی ٹی روڈ سے۔‘
مریم نواز نوجوان ووٹر کو مائل کر سکتی ہیں؟
احمد اعجاز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان ووٹرز کی ہمدردیاں سمیٹنے والی ٹرین چھوٹ گئی ہے اور اب اس مقصد کے لیے کی گئی کوئی بھی کوشش ان کے لیے فوری نتائج نہیں حاصل کر سکے گی۔
احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ اگر نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے تو پھر ضرور کسی بھی چیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’میرا نہیں خیال کہ اب مریم نواز یا کوئی اور سوشل میڈیا کے استعمال یا دوسرے طریقوں سے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جب عمران خان اور ان کی جماعت سوشل میڈیا کا ہتھیار استعمال کر رہے تھے اس وقت یہ انہیں ٹوئٹر کی جماعت اور ٹک ٹاک کا وزیراعظم کہتے تھے۔ اب یہ لوگ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمت عملی اپنا کر بھی کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں وقت لگتا ہے، دو تین ماہ میں کچھ نہیں ہوتا۔‘
لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز کی الجھن یہ ہے کہ انہیں ابھی پتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالنا بھی ہے یا نہیں اور کس کو ڈالنا ہے۔
نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے یا گھر بیٹھیں گے
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ نوجوان ووٹرز کو باہر نکالنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور اگر وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے تو پھر ضرور کسی بھی چیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
’پچھلے آٹھ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریبا 45 فیصد رہی ہے اور اس میں نوجوان ووٹروں کی شرح 30 فیصد رہی ہے یعنی وہ 15 فیصد پیچھے ہیں جو کہ اچھی صورتحال نہیں ہے۔‘
’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں نوجوان مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور پہلے سے بھی کم تعداد میں ووٹ ڈالیں یا پھر اگر ان کی کوئی حوصلہ افزائی کرے تو پھر باہر نکلیں۔‘