منظور کی گئی قرارداد کے مسودے کے ہر پیراگراف میں غزہ کے عام شہریوں اور خاص طور پر بچوں کا ذکر ہے۔
قرارداد میں حماس سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ تمام اطراف سے غزہ کے محصور شہریوں تک امداد کے پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد کی تلاش اور بحالی کی کوششیں فوری طور پر شروع کی جائیں۔ قرارداد میں کونسل نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو بھی مسترد کیا ہے۔
ووٹنگ سے قبل روس کے نمائندے ویسیلی نیبنزیا نے قرارداد میں ایک ترمیم کی تجویز پیش کی جس میں ’فوری، پائیدار اور انسانی ہمدردی کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دشمنی کا خاتمہ ہو۔‘
روسی نمائندے کی تجویز کو سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ متحدہ عرب امارات سمیت صرف پانچ ارکان نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا، جبکہ نو ارکان نے ترمیم کی تجویز والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
امریکہ اور روس دونوں نے ایک دوسرے پر غزہ کے تنازعے سے متعلق کارروائی پر اتفاق رائے کی کوششوں کو روکنے کا الزام لگایا ہے۔
سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کا ذمہ دار اقوام متحدہ کا ادارہ ہے۔ کونسل غزہ کے حوالے سے گذشتہ چار مسودہ قراردادوں کو منظور کرنے میں ناکام رہی جس سے اراکین کے درمیان تقسیم واضح ہوتی ہے۔
امریکہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی ہر اُس قرارداد کو مسترد کرتا آیا ہے جس میں اس امریکی مؤقف کا اعادہ نہیں ہوتا کہ ’اسرائیل کے اپنے دفاع کا حق‘ حاصل ہے اور اسی طرح جو قرارداد حماس کے اقدامات کی غیر واضح طور پر مذمت نہیں کرتی۔
ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی مستقل نمائندہ لانا نسیبہ نے متنبہ کیا کہ بیرونی دنیا کے لیے سلامتی کونسل ’قتل عام سے لاتعلق اور مصائب کو نظرانداز کرتی نظر آتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مالٹا کی اس قراراد میں بچوں کا تحفظ وہ شمالی ستارہ ہے جو کونسل کی راہنمائی کر رہا ہے۔‘