جنگی جرائم: یورپی یونین کے نمائندے پر دوہرے معیار کا الزام
صحافی نے پوچھا تھا کہ کیا غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے (فوٹو: سکرین شاٹ)
یورپی یونین کے خارجہ امور کے نمائندے جوزف بوریل پر ایک صحافی کی طرف سے اسرائیل کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر متنازع جواب دینے پر دوہرا معیار رکھنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ صحافی نے پوچھا تھا کہ کیا غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق یہ سوال الجزیرہ ٹی وی کے عثمان عفراح نے ایک انٹرویو میں 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ میں فوجی کارروائیوں کے حوالے سے پوچھا۔
جب جوزف بوریل سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری جنگی جرم ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ وکیل نہیں ہیں اور بین الاقوامی فوجداری عدالت یہ تحقیقات کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی ممالک نے عدالت سے کیس کھولنے کا کہا ہے۔‘
لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یورپی یونین کا خیال ہے کہ حماس نے 7 اکتوبر کو جو کچھ کیا وہ جنگی جرم تھا۔
تو انہوں نے فوری طور پر کہا کہ ’ہاں، بغیر کسی وجہ کے شہریوں کو اس طریقے سے قتل کرنا، انہیں صرف وہاں رہنے کی وجہ سے مارنے کو ہم جنگی جرم سمجھتے ہیں۔‘
صحافی نے کہا کہ ’جب آپ سے اسرائیل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے کہا کہ آپ وکیل نہیں ہیں۔ لیکن حماس پر جنگی جرائم کے الزام پر آپ بالکل واضح تھے۔ اور جب میں آپ سے اسرائیل کے بارے میں پوچھتا ہوں تو آپ کہتے ہیں کہ آپ وکیل نہیں ہیں، جیسا کہ اکثر مغربی سیاستدان کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ آپ پر واضح دوہرا معیار رکھنے کا الزام لگاتے ہیں۔‘
جوزف بوریل نے جواب دیا کہ ’نہیں، ہمارا دوہرا معیار نہیں ہے۔ ہم ان اصولوں پر قائم رہنا چاہتے ہیں جو ہم نے دیکھا ہے۔ اور ذاتی طور پر، ہاں، یہ عمل جنگی جرائم کی سطح تک جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمیں بین الاقوامی فوجداری عدالت کو اس کا فیصلہ کرنے دینا چاہیے۔‘
اسرائیل نے پیر کو غزہ میں حماس کے خلاف فوجی کارروائیوں میں توسیع کی۔ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں ہزاروں بچوں سمیت تقریباً 13 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی، مصر، سعودی عرب، اردن اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے پیر کے روز بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کے دورے کا پہلا مرحلہ ہے تاکہ ان پر جنگ بندی اور علاقے میں انسانی امداد کی اجازت دینے پر زور دیا جا سکے۔