Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں کتنے پولیس اہلکاروں کو ذہنی امراض لاحق، علاج کیسے کیا جا رہا ہے؟

صوبہ بھر میں ایکٹو پولیس نفری کی تعداد 56 ہزار سے زائد ہے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)
پنجاب میں پولیس اہکاروں کی ذہنی صحت پر بات اس وقت شروع ہوئی جب شاہد جٹ نامی ایک کانسٹیبل اور ایک یوٹیوبر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات گالی گلوچ تک جا پہنچی۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ واقعہ انٹرنیٹ کا گرم موضوع بن گیا۔ کانسٹیبل شاہد جٹ کی آج بھی میمز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ لیکن اس واقعے کے بعد محکمہ پولیس نے بڑے پیمانے پر اہلکاروں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔
پولیس کے ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ نے صوبہ بھر میں پولیس اہلکاروں کی صحت کی جانچ کی۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق 16 ہزار پولیس اہلکار مختلف بیماریوں میں مبتلا پائے گئے۔ جن میں جگر، دل، گردوں اور بلڈ پریشر کی بیماریاں نمایاں ہیں۔
 ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈی آئی جی غازی صلاح الدین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم پچھلے کچھ مہینوں سے صوبہ بھر کی پولیس کی صحت پر کام کر رہے ہیں۔ اور ہر تھانے کی سطح پر پولیس اہلکاروں کی سکریننگ کی گئی ہے۔‘
جسمانی بیماریوں کے بعد پولیس اہلکاروں کی ذہنی صحت جانچنے کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ مینٹل ہیلتھ کیٹیگری میں سو سے زائد ایسے پولیس اہلکار سامنے آئے ہیں جو شدید قسم کے ذہنی امراض کا شکار پائے گئے جبکہ ڈیڑھ ہزار کے قریب پولیس اہلکاروں میں کم درجے کی ذہنی امراض کی علامات سامنے آئی ہیں۔
ڈی آئی جی غازی صلاح الدین کے مطابق ’ہم نے ماہرین نفسیات کی خدمات لیں اور ایک مشکل ٹاسک مکمل کیا ہے۔ جن اہلکاروں کے بارے میں یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ ان کو ادوایات کی بھی ضرورت ہے تو ان کا باقاعدہ علاج بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اور ان کو محکمہ کی طرف سے چھٹی بھی دی گئی ہے تاکہ وہ اپنی صحت پر پوری توجہ دے سکیں۔ ان کا علاج ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی میں ہو رہا ہے۔ ‘
خیال رہے کہ صوبہ بھر میں ایکٹو پولیس نفری کی تعداد 56 ہزار سے زائد ہے۔ پولیس اہلکاروں کو ذہنی مسائل کی بنیادی وجہ کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈی آئی جی غازی صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ’اس میں دو طرح کی چیزیں سامنے آئی ہیں ایک وہ لوگ جو پہلے سے ہی ایسی کوئی کنڈیشن رکھتے تھے، چاہے وہ بچپن سے ہو یا اور کسی اور وجہ سے، ان کی چھپی ہوئی بیماری وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں ہوئی ہے۔ بائی پولر کا شکار ایسے کئی اہلکاروں کی نشاندہی ہوئی ہے۔‘

شاہد جٹ نامی کانسٹیبل اور ایک یوٹیوبر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور بات گالی گلوچ تک جا پہنچی تھی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

پولیس رپورٹ میں ایسے اہلکاروں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جن کو سروس کے دوران ذہنی دباؤ اور ڈپریشن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے اہلکاروں کو اب محکمہ کی طرف سے کاؤنسلنگ کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر ارم ارشاد کہتی ہیں کہ پوری دنیا میں اب قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ذہنی صحت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔
’یہ اچھی بات ہے کہ پولیس نے اپنے محکمے میں اس کام کا آغاز کیا ہے۔ میرے خیال میں اس کو ایک مستقل پریکٹس کے طور پر متعارف کروانا چاہیے۔ اور کچھ ایسی پریکٹسز جن سے فوری طور پر ذہنی دباؤ کو کم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ بریدنگ پریکٹسز ہیں اور مائنڈ فلنس ہے، ایسے چھوٹے چھوٹے اور طاقتور ٹولز سکھائے جانے چاہیں تاکہ لوگ خود ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’محکمہ پولیس میں کام کرنے والوں کو زیادہ دباؤ کا سامنا اس لیے بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان سے لگاتار کام لیا جاتا ہے اور ان کی چھٹی اور تفریح کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے ورک انوائرمنٹ کو بہتر کرنے سے بھی اہلکاروں کی ذہنی صحت میں نمایاں بہتری آئے گی۔‘

شیئر: