Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد کے مقتول پولیس کانسٹیبل محمد اشرف ’بیٹے کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے‘ 

محمد اشرف اور ان کے بیٹے کی نماز جنازہ پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں ادا کی گئی(فوٹو: اسلام آباد پولیس)
پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں جواں سال بیٹے سمیت قتل ہو جانے والے ہیڈ کانسٹیبل محمد اشرف کے آبائی گاؤں کی فضا دو دن سے سوگوار ہے۔ 
محمد اشرف کی تدفین اتوار کو پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے موضع عدلانہ میں سرکاری اعزاز کے ساتھ ہوئی۔ اس موقعے پر اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسران سمیت بڑی تعداد میں لوگ وہاں موجود تھے۔
ہیڈ کانسٹیبل محمد اشرف کے بھتیجے امتیاز ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’محمد اشرف 1993 میں اسلام آباد پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ پہلے وہ پولیس لائنز ہی میں رہتے تھے اور اب تقریباً 10 برس سے وہ اہل خانہ سمیت اسلام آباد میں ایک فلیٹ میں مقیم تھے۔‘ 

’یہاں ہر طرف سوگ کا سماں ہے‘ 

امتیاز ایڈووکیٹ کے مطابق ’محمد اشرف کی یوں اچانک موت نے پورے گاؤں کو صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہاں ہر طرف سوگ کا سماں ہے۔‘ 
اسلام آباد پولیس کے حوالے اسے ان کا کہنا تھا کہ ’اس حادثے کے بعد پولیس ڈپارٹمنٹ کا رویہ بہت اچھا رہا۔ اسلام آباد پولیس کے اہلکار محمد اشرف اور ان کے بیٹے کے جنازے کے ساتھ گاؤں آئے تھے۔ انہوں نے اشرف کو سلامی دی اور پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا۔‘
اتوار ہی کو اسلام آباد پولیس نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ ’ہیڈ کانسٹیبل محمد اشرف اور ان کے بیٹے کی نماز جنازہ پولیس لائن ہیڈ کوارٹرز میں ادا کی گئی جس میں پولیس، ضلعی انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔‘ 

’مقتول بیٹا فرسٹ ایئر میں پڑھتا تھا‘ 

محمد اشرف کے بھتیجے امتیاز ایڈووکیٹ نے مقتول ہیڈ کانسٹیبل کے لواحقین کے بارے میں بتایا کہ ’محمد اشرف کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑی بیٹی کے علاوہ تمام بچے غیر شادی شدہ ہیں۔ ان کے ساتھ جان کی بازی ہارنے والے بیٹے کی عمر 18 برس کے قریب تھی جبکہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی 10 برس کی ہے۔‘ 
’جب یہ واقعہ پیش آیا تو محمد اشرف کے ساتھ ان کے بیٹے محمد ذیشان کے علاوہ ان کی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی بھی تھیں۔‘ 

’اشرف دھمیے مزاج کے انسان تھے‘ 

امتیاز ایڈووکیٹ کے مطابق ’محمد اشرف دھیمے مزاج کے انسان تھے لیکن وہ معاشرتی برائیوں کے خلاف تھے۔ ان دنوں ان کے فلیٹ کے قریب سے چوری کی وارداتیں بھی ہوئی تھی بلکہ ان کی اپنی موٹر بائیک بھی چوری ہوئی تھی۔‘ 
’ان وارداتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج آئی تھی۔ شاید انہیں لگا کہ یہ ان وارداتوں میں ملوث افراد ہیں تو انہوں نے مزاحمت کی کوشش کی۔‘ 

محمد اشرف سے جان کی بازی ہارنے والا ان کا بیٹا فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا (فوٹو: امتیاز ایڈووکیٹ)

52 سالہ محمد اشرف اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے بارے میں فکرمند تھے۔ امتیاز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’گاؤں میں ہمارے گھر ساتھ ساتھ ہیں۔ محمد اشرف کے والد میرے چچا زاد تھے جبکہ ان کی اہلیہ میری خالہ زاد بہن ہیں۔‘ 
’وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے معاشرے کے اچھے شہری اور آفیسر بنیں۔ ان کے ساتھ جو بیٹا محمد ذیشان شہید ہوا، اسے وہ ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ وہ فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔‘ 

محمد اشرف 1993 میں اسلام آباد پولیس میں بھرتی ہوئے تھے (فوٹو: امتیاز ایڈووکیٹ)

محمد اشرف کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ان کے بڑے بھائی نور اکبر بھی اسلام آباد پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں اور دوسرے بھائی محمد انوار ہائی وے میں ٹیلی فون ایکسچینج کے شعبے میں ملازمت کرتے ہیں۔‘ 

واقعہ کب اور کیسے پیش آیا؟ 

اتوار کو اسلام آباد پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ ’ہیڈ کانسٹیبل محمد اشرف تھانہ رمنا کی حدود جی 11 سے گزر رہے تھے اور انہوں نے راہزنوں کو واردات کرتے دیکھا۔ انہوں نے راہزنوں کو پکڑنے کی کوشش کی تو ملزمان نے فائرنگ کردی۔‘ 
بیان کے مطابق ’ان کا بیٹا ان کی مدد کو آیا تو وہ بھی راہزنوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔ اس کے بعد دونوں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔‘ 
پولیس کے سینیئر افسران بھاری نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے علاقہ میں سرچ آپریشن کیا۔‘

یہ واقعہ اتوار کو اسلام آباد کے تھانہ رمنا کی حدود میں پیش آیا (فوٹو: سکرین گریب)

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایکس اور فیس بک پر اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے اور صارفین واقعے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ 

شیئر: