بی این پی کے حمایتی اور وکلا اپنے کارکنوں کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں نے اگلے برس جنوری میں ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر پیر سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کے وزیراعظم شیخ حسینہ کے آمرانہ طرز حکمرانی اور ان کے استعفے کے مطالبے کے لیے ہونے والے بڑے مظاہروں کے بعد ان کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں انتخابات کا انعقاد اگلے برس جنوری کی سات تاریخ کو ہو گا۔
حکمراں جماعت عوامی لیگ کے برہم باڑیہ شہر کے مشرقی ضلع سے امیدوار عبید المقتدر چوہدری نے کہا کہ ’مجھے 100 فیصد یقین ہے کہ جیت میری ہو گی۔‘
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے قانونی امور کے سربراہ قیصر کمال کا کہنا تھا کہ ان کے کم از کم 21 ہزار آٹھ سو 35 کارکنوں کو 25 اکتوبر سے اب تک گرفتار کیا گیا ہے۔
بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا وزیراعظم حسینہ واجد کی سب سے بڑی حریف ہیں۔ وہ ملک کی دو مرتبہ وزیراعظم رہی ہیں۔ انہیں 17 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن سنہ 2020 میں انہیں رہا کر دیا گیا لیکن وہ تب سے اپنے گھر میں نظربند ہیں۔
پیر کو ڈھاکہ کی ایک عدالت نے خالدہ ضیا کی غیرموجودگی میں پارٹی کے امور چلانے والے مرزا فخرالسلام عالمگیر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔
قیصر کمال کے مطابق ’یہ ایک سیاسی منصوبے کا حصہ ہے تاکہ کوئی اپوزیشن رہنما یا کارکن آواز بلند نہ کر سکے۔‘
بنگلہ دیش کے ایک سرکردہ اخبار ’پرتھم آلو‘ میں پیر کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ستمبر سے لے کر اب تک حزب اختلاف کے 12 سو 49 کارکنوں کو مختلف سزائیں سنائی گئی ہیں۔ ان پر زیادہ تر احتجاج کے دوران تشدد، آتش زنی اور پولیس کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات ہیں۔
بنگلہ دیش کی اعلٰی ترین عدالت نے گذشتہ ماہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
جماعت اسلامی کے مطابق 25 اکتوبر سے اب تک اس کے 31 سو سے زائد کارکن گرفتار ہو چکے ہیں۔