Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بلوچ یکجہتی لانگ مارچ‘: اسلام آباد انتظامیہ عدالت طلب، مذاکراتی کمیٹی تشکیل

بلوچستان میں بھی کوہلو اور بارکھان میں سینکڑوں افراد نے احتجاج شروع کر دیا ہے (فوٹو: عابس پشتین ایکس)
بلوچ لانگ مارچ کے منتظمین کے شرکا کی گرفتاریوں کے خلاف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اور ڈی سی اسلام آباد کو 4 بجے طلب کر لیا۔
دوسری جانب نگراں حکومت نے لانگ مارچ کے منتظمین سے مذاکرات کے لیے تین وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں وہ خود، وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد اور وزیر برائے قومی ورثہ و ثقافت جمال شاہ شامل ہیں۔
بلوچستان میں بھی کوہلو اور بارکھان میں سینکڑوں افراد نے احتجاج شروع کر دیا ہے اور بلوچستان پنجاب شاہراہ کو بند کر دیا ہے، جبکہ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے باہر دھرنا شروع کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے لانگ مارچ کے منتظمین کی درخواست پر سماعت کی، پٹیشنرز کی جانب سے ایمان مزاری ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں۔
ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ’پُرامن بلوچ مظاہرین کل اسلام آباد پہنچے جن پر لاٹھی چارج اور فورس کا استعمال کیا گیا، پُرامن مظاہرین کو حراست میں بھی لیا گیا جو غیر قانونی ہے، مظاہرین میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔‘
جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ لانگ مارچ کے شرکا کی گرفتاریوں کے خلاف لانگ مارچ کے منتظمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’تمام احتجاجی مظاہرین کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا جائے، لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب کی جائیں اور لانگ مارچ کے شرکا کو ہراساں کرنے روکا جائے۔‘
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے کہا تھ کہ چونگی نمبر 26 اور ایوب چوک میں اہلکاروں پر مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا جس پر متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بلوچستان بار کونسل نے پولیس تشدد کے خلاف کوئٹہ اور دیگر اضلاع میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب جمعرات کی علی الصبح لاپتہ بلوچ افراد کے لانگ مارچ کی سربراہی کرنے والی ماہ رنگ  بلوچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’تمام مظاہرین کو گرفتار کر کے مختلف تھانوں میں رکھا گیا ہے۔‘
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ’اس وقت خواتین اور بچوں کو ایک اور تھانے میں لے جایا جا رہا ہے۔ ہم اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ رابطہ نہیں کر پا رہے، اور ہمیں خوف ہے کہ ریاست اُن کو اغوا کر لے گی۔‘
رات گئے اسلام آباد پولیس نے بلوچستان کے علاقے تربت سے قافلے کی صورت میں آںے والے افراد کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔

پولیس کے بیان کے مطابق ’ایوب چوک پر بھی مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔‘ (فوٹو: علیمہ خان ایکس)

بعد ازاں ایک بیان میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ جی ٹی روڈ اور موٹروے سے اسلام آباد میں داخل ہونے والے راستے پر ’چونگی نمبر 26 میں مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔‘
پولیس کے بیان کے مطابق ’ایوب چوک پر بھی مظاہرین کی طرف سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔ اور پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ’راستہ روکنے اور سڑکیں بند کرنے والوں کے خلاف  ضابطہ کے مطابق قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ آپ سے گذارش ہے کہ کسی بھی غیر قانونی اجتماع یا پر تشدد مظاہرے کا حصہ نہ بنیں۔ عورتوں اور بچوں کو پر تشدد مظاہروں سے دور رکھیں۔‘
بدھ کی رات پولیس نے کہا تھا کہ ’مظاہرین کے درمیان متعدد نقاب پوش اور ڈنڈا بردار موجود ہیں۔ مظاہرین کو ہائی سکیورٹی زون میں داخلے سے روکنے کے لیے غیر مہلک طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال سے مکمل گریز کیا گیا ہے۔
پولیس نے اعلان کیا تھا کہ ’بزرگوں،عورتوں اور بچوں سے گذارش ہے کہ پرتشدد ہجوم کا حصہ نہ بنیں اور کسی کے بہکاوے میں مت آئیں۔ اسلام آباد کے شہریوں کی جان اور املاک کی حفاظت اسلام آباد پولیس کی  اولین ترجیح ہے۔‘
یہ لانگ مارچ دہشتگردی کے الزام میں حراست میں لئے گئے تربت کے رہائشی بالاچ بلوچ سمیت چار افراد کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف چھ دسمبر کو مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے شروع ہوا تھا۔
چاروں افراد کو کاؤنٹر ٹیررازم پولیس ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) نے 22 نومبر کی شب ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم لواحقین کا الزام ہے کہ چاروں افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
بالاچ کے والد مولا بخش کے مطابق بالاچ کو 29 اکتوبر کو تربت کے علاقے آبسر میں اپنے گھر سے اہلخانہ کے سامنے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا اور پھر چند دنوں بعد اس کی گرفتاری ظاہر کرکے عدالت میں پیش کیا گیا۔

 مارچ پنجگور، بسیمہ ، نال، گریشہ، خضدار، سوراب، قلات اور مستونگ سے ہوتا ہوا 11 دسمبر کو  کوئٹہ پہنچا تھا- فوٹو: ماہ رنگ بلوچ ٹوئٹر

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے بالاچ کو سی ٹی ڈی پولیس کو جسمانی ریمانڈ پر حوالے کیا مگر اس دوران پولیس نے انہیں جعلی مقابلے میں ماردیا۔ تاہم سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ بالاچ بلوچ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کا رکن تھا جس کی نشاندہی پر دہشتگردوں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا جہاں وہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا- ان کے تین دہشتگرد ساتھی جوابی پولیس کارروائی میں مارے گئے۔
بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ بالاچ بلوچ خود دہشتگردی کی 11 وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کر چکا تھا۔
بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر سی ٹی ڈی تربت کے چار اہلکاروں کو معطل کر کے ان کے خلاف عدالتی احکامات پر مقدمہ درج کیا گیا۔
بالاچ بلوچ کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پہلے کئی دنوں تک میت کے ہمراہ تربت میں دھرنا دیا پھر میت کی تدفین کی لیکن دھرنا دو ہفتے تک جاری رہا۔
 سی ٹی ڈی کو غیر مسلح کرنے، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت کارروائیوں کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی جیسے مطالبات لے کر دھرنے کے شرکاء نے 6 مارچ کو تربت سے لانگ مارچ شروع کر دیا۔
 مارچ پنجگور، بسیمہ ، نال، گریشہ، خضدار، سوراب، قلات اور مستونگ سے ہوتا ہوا 11 دسمبر کو  کوئٹہ پہنچا تھا- کوئٹہ میں احتجاج کی اجازت نہ ملنے پر بلوچ یک جہتی کمیٹی نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا۔ کوہلو، بارکھان ، ڈیرہ غازی خان اور تونسہ میں مارچ کے شرکاء کا بڑا استقبال ہوا۔
احتجاج میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک رہی۔بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام اس مارچ کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ کر رہی تھیں۔
ماہ رنگ کے مطابق تربت سے اسلام آباد تک انتظامیہ نے جگہ جگہ  رکاوٹیں کھڑی کرکے مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ نال، خضدار اور کوہلو میں مارچ کے شرکاء پر تین مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

شیئر: