وہ اب تک یہ نہیں جانتے تھے کہ کرن کون ہے اور کہاں سے آئی ہے لیکن مسلسل ملاقاتوں اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کرن نے انہیں مجبور کر دیا تھا کہ وہ سب انہیں اپنے گھر کا ہی ایک فرد مان لیں۔
کرن جب بھی ان کے ہاں سیالکوٹ آتی تو رفعت کی 12 سالہ بیٹی انمول حرا اکثر اس کے ساتھ سودا سلف لانے کے لیے مارکیٹ جاتی۔
رفعت بی بی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’وہ کرن پر کوئی شک نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ وہ ہمارے گھر کا حصہ بن گئی تھی اور میری بیٹی اکثر کرن کے ساتھ باہر جاتی تھی لیکن پھر 28 نومبر کا وہ دن آگیا جب کرن نے تمام رشتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رفعت کو اس کی زندگی کا سب سے بڑا گھائو دیا۔‘
رفعت کے بقول، ’کرن ان دنوں ہمارے گھر آئی ہوئی تھی جب ایک شام وہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ وہ باہر بازار تک جا رہی ہے تاکہ اپنے بھائی کو ایزی پیسہ کے ذریعے رقم بھیج سکے۔‘
اُس نے کہا کہ ’وہ انمول کو بھی اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہے۔‘
رفعت کے مطابق وہ ان کی بیٹی کو اکثر گھر سے باہر لے جاتی تھی اس لیے اِس بار بھی انہوں نےاجازت دے دی اور وہ دونوں چلے گئے۔
کرن کے جانے کے بعد رفعت گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ جب کافی وقت گزر گیا اور کرن واپس نہیں آئی تو رفعت کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔
رفعت پریشان ہو گئی کہ ان کی بیٹی انمول حرا اور کرن اب تک واپس کیوں نہیں آئے؟
وہ پریشانی کے عالم میں گھر میں ٹہل رہی تھی جب رفعت کے موبائل پر کرن کا فون آگیا۔
رفعت بی بی کے مطابق، ’رفعت نے پوچھا کہ میں گھر آرہی ہوں۔ اگر انڈے چاہییں ہوں تو میں لے آتی ہوں؟ میں نے کہا کچھ بھی نہیں چاہیے بس تم دونوں واپس آجاؤ۔ رفعت اس فون کال کے بعد کسی حد تک سنبھل گئی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور کرن ان کی بیٹی سمیت گھر واپس نہیں لوٹی تو رفعت کے ڈر میں اضافہ ہونے لگا۔
کرن دن بھر گھر نہیں لوٹی اور اندھیرا چھا رہا تھا تو رفعت محلے میں دونوں کو ڈھونڈنے نکل گئی۔
اہل علاقہ سمیت رشتہ داروں کے ہاں پتہ کیا لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔
رفعت بی بی نے روتے ہوئے بتایا، ’مجھے کرن کی طرف سے آخری فون کال کے بعد اس کی طرف سے کوئی کال نہیں آئی اور نہ یہ پتہ چل سکا کہ وہ دونوں کہاں غائب ہوگئے؟ ہم نے بہت ڈھونڈا لیکن آج پچیس دن ہوگئے میری بیٹی نہیں مل رہی۔‘
رفعت نے جب پورے علاقے میں چھان بین کی اور ارد گرد کے لوگوں سے پوچھا تو ناامید ہوگئی۔ ان کے شوہر محمد الیاس تھانہ ڈسکہ پہنچے اور ایف آئی آر درج کروا دی۔
تھانہ ڈسکہ میں درج مقدمے میں انہوں نے شکایت درج کروائی کہ ’ لاہور کی رہائشی کرن جو میری دور کی رشتہ دار ہے، آج میرے گھر آئی ہوئی تھی۔ وہ 28 نومبر کو ساڑھے پانچ بجے شام میری 12 سال کی بیٹی انمول حرا کو ساتھ لے کر دکان پر گئی جو تاحال واپس نہیں آئی ہے۔‘
مقدمہ کے مدعی نے یہ شک ظاہر کیا کہ ’ان کی بیٹی کو کرن نے اغوا کیا ہے۔‘
رفعت بی بی نے بتایا کہ ’میں کرن کو نہیں جانتی۔ ہم نے لاہور میں اس کے گھر جا کر بھی پوچھا لیکن ہمیں بتایا گیا کہ وہ ٹھیک عورت نہیں تھی۔ کرائے کے گھر میں رہتی تھی اور چلی گئی۔ مجھے کچھ نہیں معلوم، بس میری بیٹی لوٹا دو۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’محلے والوں نے انہیں بتایا کہ کرن شراب بھی پیتی تھی اور اس کے گھر غیر لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔‘
اس کیس کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر وارث علی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’جب سے مقدمہ درج کرایا گیا پولیس تفتیش کر رہی ہے۔‘
پولیس کے مطابق کرن کا نمبر ٹریس کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن کرن کا جو نمبر ہمیں دیا گیا ہے وہ بند ہے اس لیے ہم ان تک نہیں پہنچ پا رہے۔
ان کے مطابق پولیس مقدمے میں نامزد ملزمہ کے زیر استعمال فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کو بھی ٹریس کر رہی ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ بچی کو بازیاب کروا لیں لیکن پولیس کو اب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے۔ ہماری کوشش ہے کہ نامزد ملزمہ تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ کیس میں پیشرفت ہو سکے۔
پنجاب میں گزشتہ کئی برسوں سے بچوں اور لڑکیوں کے اغوا میں اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب پولیس کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پولیس کے پاس موجود اعداد و شمار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’پنجاب کے 36 اضلاع میں 2017 سے 2022 تک 40 ہزار سے زائد خواتین کو اغوا کیا گیا۔ اب تک 37 ہزار کے لگ بھگ مغوی خواتین کو ٹریس کیا گیا ہے جبکہ متعدد مشکوک افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔‘
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر گھنٹے میں دو خواتین اغوا ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2023 سے اپریل 2023 تک 5551 خواتین کو اغوا کیا گیا جبکہ صرف لاہور میں 1427 کیسز سامنے آئے۔
پولیس عہدیدار کے مطابق پنجاب پولیس کی جانب سے خواتین کے لیے حفاظتی سنٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں خواتین اور خواجہ سرا افسران کو بطور وکٹم سپورٹ افسر کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
’اس حوالے سے این جی اوز کے ساتھ مل کر پنجاب پولیس ٹریننگز بھی منعقد کر رہی ہے۔ کوشش یہی ہے کہ ایسے واقعات رپورٹ ہوں تاکہ پولیس ملزموں کو ٹریس کر کے ان کا قلع قمع کر سکے۔‘