ملک ریاض اور شہزاد اکبر سمیت شریک ملزمان کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم
ملک ریاض اور شہزاد اکبر سمیت شریک ملزمان کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم
منگل 9 جنوری 2024 12:05
احتساب عدالت نے تمام ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض، وزیراعظم کے سابق معاونین خصوصی زلفی بخاری اور شہزاد اکبر اور فرح گوگی کے تمام اثاثے منجمد کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے حکم جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ وکیل ضیا المصطفی نسیم و دیگر ملزمان کے بھی اثاثے اور بنک اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں جبکہ ملزمان کے نام رجسٹرڈ گاڑیاں بھی ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت نے اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد تمام ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے ہیں۔
190 ملین پاونڈ کرپشن کیس کے اشتہاری ملزمان فرح گوگی، شہزاد اکبر اور ملک ریاض کی جائیداد کی تفصیلات پر مبنی رپورٹ احتساب عدالت میں پیش کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق موہڑہ نور اسلام آباد میں سو سو کنال اور ایک چالیس کنال کی اراضی، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں سات مختلف پلاٹس فرح گوگی کی ملکیت ہیں جنہیں منجمد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت نے فرح گوگی کی 22 لگثری گاڑیاں بھی ضبط کرنے اور امریکی اور برطانوی کرنسی کے 29 بنک اکاؤنٹس منجمد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی شہزاد اکبر کا لاہور کے کمرشل پلاٹ سمیت 24 بنک اکاؤنٹس جبکہ زلفی بخاری کے تین بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عدالت نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ملک ریاض کی راولپنڈی اور اسلام آباد میں اراضی کو منجمد کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
القادر یونیورسٹی کیس کیا ہے؟
اس معاملے کی ابتدا پاکستان کے معروف پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے خاندان پر برطانیہ میں دائر ہونے والے ایک مقدمے سے ہوئی۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں بحریہ ٹاؤن کی رقم برطانیہ میں ضبط کی گئی جس کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان خفیہ طور پر تصفیہ ہو گیا تھا۔
ان کے بعد نئی بننے والی اتحادی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے 50 ارب روپے غیرقانونی طور پر برطانیہ منتقل کیے جنہیں وہاں منجمد کر لیا گیا تھا۔ عمران خان کی حکومت کی جانب سے یہ رقم واپس لانے کے بجائے برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کو ریلیف دیا گیا۔‘
حکومت کا دعویٰ تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے جو پیسے برطانیہ میں پکڑے گئے وہ سپریم کورٹ کی فیصلے کے بعد واجب الادا رقم میں ایڈجسٹ کر دیے گئے تھے۔‘
جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔
اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔
ان دستاویزات میں اُس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا وزیراعظم کو لکھا گیا نوٹ بھی شامل تھا جس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاؤن اور ایسیٹ ریکوری یونٹ کے درمیان خفیہ معاہدے کی منظوری دی۔
حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے اراضی حاصل کی گئی۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی دستاویزات بھی منظر عام پر لائی گئیں۔
منظرعام پر لائی گئی ان دستاویزات کے مطابق 24 مارچ 2021 کو بحریہ ٹاؤن نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم سوہاوا میں 458 کنال کی اراضی عطیہ کی۔
عطیہ کی گئی اس اراضی کا معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا۔
ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ دستخط کیے تھے۔