Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات انتخابی مہم کو کس حد تک متاثر کرسکتے ہیں؟

پارٹی رہنماؤں کے مطابق ’دیگر جماعتوں کے ساتھ جاری مذاکرات کی وجہ سے فیصلہ سازی میں تاخیر ہو رہی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک بھر میں انتخابی امیدواروں کی حتمی فہرستوں کے اجرا میں صرف ایک دن کا وقت رہ گیا ہے تاہم مسلم لیگ ن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی ہے کہ اس کے حتمی امیدوار کون ہوں گے۔ 
مسلم لیگ ن نے صرف بلوچستان سے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم اور اجرا میں شامل کئی پارٹی رہنما اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے جاری مذاکرات کی وجہ سے فیصلہ سازی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ پیچیدگی کا سامنا لاہور کی نشستوں پر ہے جہاں سے استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر بھی کئی امیدواروں کے درمیان کشمکش چل رہی ہے۔ 
ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل میں شریک ایک لیگی رہنما نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقوں کا زیادہ تر مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ صرف حلقہ این اے 117 اور 124 کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔‘
’اس کی بڑی وجہ استحکام پارٹی کا لاہور سے دو سیٹیں دینے مطالبہ ہے۔ جب کہ ہماری پارٹی صرف ایک سیٹ پر ایڈجسٹمنٹ کے لیے تیار ہے۔ آئی پی پی علیم خان اور عون چوہدری کے لیے تعاون مانگ رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان سیٹوں پر مسلم لیگ ن کے اپنے امیدوار بھی آمنے سامنے ہیں۔ شیخ روحیل اصغر کو گرین سگنل ملنے کے بعد اب سردار ایاز صادق این اے 117 سے امیدوار ہیں۔‘
’تاہم ان کے مقابلے میں ملک ریاض جن کا وہ آبائی حلقہ ہے وہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح کے معاملات لاہور کی 10 صوبائی نشستوں پر بھی ہیں۔‘
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں تحریک استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا عندیہ گذشتہ کئی ہفتوں سے دے رہی ہے جبکہ سندھ میں اس حوالے سے ایم کیو ایم کےساتھ مذاکرات میں بھی شامل ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق سیٹ ایڈجسٹمنٹ کسی کروٹ نہ بیٹھنے ہی کی وجہ سے پارٹی کے اندر بھی امیدواروں کے درمیان کھینچا تانی جاری ہے۔

’مسلم لیگ ن، علیم خان اور عون چوہدری میں سے صرف ایک کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر تیار ہے‘ (فائل فوٹو: جہانگیر ترین ایکس اکاؤنٹ)

کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل مسلم لیگ ن نے اپنے امیدواروں سے حلف بھی لیا تھا کہ اگر پارٹی انہیں کاغذات واپس لینے کا کہے گی تو وہ پارٹی پالیسی سے رُوگردانی نہیں کریں گے۔
کن حلقوں میں سرد جنگ ہے؟
لیگی رہنماؤں کی جانب سے دستیاب معلومات کے مطابق پی پی 145 میں سمیع اللہ خان، سید حشمت شاہ اور چودھری احد کے مابین رسہ کشی جاری ہے یہ ہی وجہ ہے کہ این اے 124 کا امیدوار ابھی تک فائنل نہیں ہو سکا۔
ان تینوں لیگی رہنماؤں نے اپنے کاغذات نامزدگی این اے 124 اور پی پی 145 سے جمع کروا رکھے ہیں۔ اسی طرح شاہدرہ کی پی پی 146 کی نشست پر غزالی بٹ اور ملک ریاض کے درمیان بھی یہ ہی صورت حال ہے۔ 
ملک ریاض نے این اے 117 سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں، تاہم آئی پی پی یا سردار ایاز صادق کو قومی اسمبل کی سیٹ دیے جانے پر وہ پی پی 146 سے الیکشن لڑنے کے لیے امیدوار ہیں۔
پی پی 162 میں تین لیگی امیدوار ملک شہباز کھوکھر، چوہدری آصف خان میو اور میاں اسلم آمنے سامنے ہیں۔ پی پی 163 سے حمزہ شہباز کے سیکریٹری عمران گورائیہ اور میاں عمران جاوید کے درمیان بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔

ٹکٹوں کی تقسیم پر مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ پیچیدگی کا سامنا لاہور کی نشستوں پر ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

پی پی 169 میں توصیف شاہ اور ملک خالد پرویز کے درمیان میچ ابھی تک ٹائی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پی پی 170 کی ہے جہاں مردان علی زیدی، میاں اطہر اور ماجد ظہور پارٹی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔
لاہور کے ہی صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 171 سے چوہدری باقر حسین اور خواجہ احمد حسان پارٹی ٹکٹ کے خواہش مند ہیں جبکہ پی پی 168 میں ملک شبیر کھوکھر اور ملک فیصل ایوب کھوکھر دونوں ہی مضبوط امیدوار ہیں۔
خواجہ احمد حسان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ پارٹی ٹکٹ دے یا نہ دے۔ ہم پارٹی پالیسی کے تابع ہیں۔ جو بھی فیصلہ کیا جائے گا اس کو من و عن تسلیم کریں گے۔‘
’اسی طرح کے معاملات پہلے بھی آتے رہے ہیں، ایک ایک حلقے سے کئی کئی خواہش مند ہوتے ہیں، تاہم ٹکٹ اس کو ہی ملتا ہے جس کے بارے میں تاثر زیادہ مضبوط ہو۔ ابھی ایک دو روز میں سب واضح ہو جائے گا۔‘
یاد رہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد پنجاب کے 20 صوبائی حلقوں میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔

عطا اللہ تارڑ کے مطابق ’جس شفاف انداز سے پارٹی امیدواروں کا تعین کر رہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی‘ (فائل فوٹو: عطا تارڑ ایکس اکاؤنٹ)

 اس ناکامی کی توجیح یہ پیش کی گئی تھی کہ یہ امیدوار تحریک انصاف کے تھے جنہیں پارٹی سے بغاوت کے بعد مسلم لیگ ن نے ٹکٹ دیے اور مقامی قیادت نے ایسے امیدواروں کا اس لیے ساتھ نہیں دیا کیونکہ وہ چھاتہ بردار تھے۔
لیگی رہنما عطا اللہ تارڑ کہتے ہیں ’اب صورت حال ویسی نہیں ہے، ضمنی انتخابات کے وقت صورت حال مختلف تھی۔ اب ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ پارٹی ٹکٹ کے امیدوار ایک سے زیادہ ہیں۔‘ 
’جس طرح شفاف انداز سے مسلم لیگ ن اس بار اپنے امیدواروں کا تعین کر رہی ہے اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جن لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملیں گے وہ بھی ن لیگ کا حصہ رہیں گے اور پارٹی کے لیے اتنے ہی مفید ہوں گے جتنے پہلے تھے۔‘

شیئر: