Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تیر، شیر اور بلّا: انتخابی نشان ’سیاسی قوّت کی علامت‘ کیسے بنے؟

پی ٹی آئی نے اپنے انتخابی نشان کی بحالی کے لیے قانونی جنگ لڑی ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے ’بلّے‘ کا انتخابی نشان  بحال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ اس سلسلے میں سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی نشان کی بحالی کے لیے قانونی جنگ لڑی ہے جس کے بعد ان کا انتخابی نشان بحال ہوا ہے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کی ایک وجہ پارٹی رہنماؤں، ووٹرز اور سپورٹرز کی اپنے نشان سے جذباتی وابستگی ہے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ووٹرز عموماً کم تعلیم یافتہ ہیں اور انھیں ہر بار نئے انتخابی نشان پر مہر لگانے کے لیے سمجھانا ایک مشکل عمل ہے۔
اس لیے سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی نشانات کا تسلسل چاہتی ہیں۔
کسی وجہ سے اگر کوئی جماعت اپنا انتخابی نشان سرنڈر کرتی ہے یا کھو دیتی ہے تو وہ انتخابی نشان کسی دوسری جماعت کو دیا جا سکتا ہے جیسے حال ہی میں پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کا انتخابی نشان ’عقاب‘ استحکام پاکستان پارٹی کو الاٹ کر دیا گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے انتخابات کی بھی ایک تاریخ ہے جو بالکل پاکستان کی سیاسی تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے۔

پاکستان کا سب سے پرانا انتخابی نشان ’لالٹین‘

پاکستان میں پہلے براہ راست انتخابات 1970 میں ہوئے جس میں مسلم لیگ، عوامی لیگ، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے حصہ لیا۔ یوں پہلی بار سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات ملے لیکن اس سے پہلے 1968 کے صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب ’پھول‘ اور محترمہ فاطمہ جناح ’لالٹین‘ کے انتخابی نشانات پر حصہ لے چکی تھیں۔
صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کو نیپ میں شامل جماعتوں کی حمایت حاصل تھی جن میں عوامی نیشنل پارٹی کے بانی سرفہرست تھے۔ ولی خان کی تجویز پر محترمہ فاطمہ جناح نے ’لالٹین‘ کا انتخابی نشان حاصل کیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے ’بلّے‘ کا انتخابی نشان  بحال کر دیا ہے (فوٹو: گیٹی امیجز)

اے این پی کے رہنما زاہد خان کے مطابق ’اس وقت مارشل لاء کا دور تھا اور محترمہ فاطمہ جناح جمہوریت کے استعارے کے طور پر چمک رہی تھیں۔ اسی وجہ سے ایک اجلاس میں ولی خان نے لالٹین کا انتخابی نشان تجویز کیا جسے سب نے پسند کیا۔‘
1970 کے انتخابات میں لالٹین کا نشان مسلم لیگ کو الاٹ ہوا لیکن 1976 میں عوامی نیشنل پارٹی تشکیل پائی تو انھوں نے اپنے لیے لالٹین کا انتخابی نشان حاصل کیا۔ تب سے اب تک اے این پی نے تمام انتخابات اسی انتخابی نشان پر لڑے ہیں۔ 
8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے اے این پی کو یہ نشان ابھی تک جاری نہیں کیا لیکن پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے جو جاری ہونے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اے این پی اس بار لالٹین کے نشان پر الیکشن لڑ سکے گی یا وہ اس سے محروم کر دی جائے گی۔ 

پیپلز پارٹی کے نشانات ’تیر‘ اور ’تلوار‘

پاکستان پیپلز پارٹی نے 1970 میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور تلوار کا انتخابی نشان حاصل کیا۔ 1977 میں بھی پیپلز پارٹی نے تلوار کے نشان پر الیکشن لڑا لیکن 1988 کے انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی پر پابندی عائد ہوئی تو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین معرضِ وجود میں آئی اور اس کے لیے انتخابی نشان ’تیر‘ حاصل کیا گیا۔ 
پارٹی کے دیرینہ کارکن اور رہنما سینیٹر تاج حیدر کے بقول ’ان حالات میں لڑنا مقصود تھا تلوار کے لیے قریب سے لڑنا پڑتا تھا جبکہ تیر کے ساتھ ذرا فاصلے پر رہ کر وار کیا جا سکتا تھا۔ اس لیے پارٹی رہنماؤں نے سوچ بچار کے بعد تیر کا نشان حاصل کیا۔‘
1988 کے بعد ہونے والے تمام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے تیر کے نشان پر ہی الیکشن لڑا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ’تیر‘ کے ساتھ وابستگی دیدنی ہے اور پارٹی کے کئی ایک ترانوں میں تیر کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔
29 مئی 2018 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) 41 سال طویل قانونی جنگ کے بعد اپنے انتخابی نشان کے طور پر ’تلوار‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی حالانکہ اس سارے عرصے میں کسی اور سیاسی جماعت کو یہ نشان نہیں دیا گیا تاہم پیپلز پارٹی انتخابی میدان میں ’تیر‘ کے ساتھ ہی اُتر رہی ہے۔ 
2018 میں تلوار کے نشان کے لیے چار دعویدار تھے جن میں پی پی پی، صفدر عباسی کی قیادت میں پی پی پی- ورکرز، غنویٰ بھٹو کی سربراہی میں پی پی پی- شہید بھٹو اور ڈاکٹر تنویر زمانی کی زیر قیادت پیپلز موومنٹ آف پاکستان شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 1970 اور 1977 کے انتخابات تلوار کے نشان سے لڑے تھے۔

مسلم لیگ ن کے پارٹی اور انتخابی ترانوں میں نواز شریف کو شیر سے تشبیہ دی جاتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

یہ نشان سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1977 کے انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی فہرست سے حذف کر دیا گیا تھا اور پھر 2013 میں اسے بحال کر دیا گیا تھا۔

سرتاج عزیز کی پسند ، انتخابی نشان ’شیر‘

پاکستان مسلم لیگ 1988 اور 90 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے لڑی جس میں نو جماعتوں کے امیدواروں کا انتخابی نشان ’سائیکل‘ تھا۔
1993 میں مسلم لیگ کا انتخابی نشان مسلم لیگ جونیجو لے اُڑی تو پارٹی کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل سرتاج عزیز الیکشن کمیشن گئے اور شیر کا ’نشان‘ لے آئے۔
مسلم لیگ کے چیئرمین راجا محمد ظفرالحق نے بتایا کہ 1993 میں پارٹی نواز شریف کے نام پر رجسٹرڈ کروائی تو پارٹی نے انتخابی نشان سائیکل لینے کا ہی سوچا تھا لیکن اس وقت ملی بھگت سے یہ نشان مسلم لیگ جونیجو کو دے دیا گیا۔ تاہم پارٹی نے سوچ بچار کے بعد شیر کا نشان لیا۔  
انھوں نے کہا کہ ’شیر کا نشان مسلم لیگ کے مزاج کے بھی عین مطابق ہے۔ ہماری جماعت نے اپنے پہلے دور حکومت سے لے کر آج تک مستقل جدوجہد کی ہے اور ان طاقتوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے جو خود کو بہت زیادہ طاقت ور سمجھتی ہیں۔‘  
مسلم لیگ ن کے پارٹی اور انتخابی ترانوں میں نواز شریف کو شیر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت شیر کے نشان کو اپنی کامیابی کا نشان قرار دیتی ہے۔
راجا ظفرالحق کے مطابق ’مشکل ترین دور میں بھی شیر کے نشان پر مسلم لیگ ن کو سیاسی میدان سے باہر نہیں کیا جا سکا اور عوام اسے پسند کرتے اور ووٹ دیتے ہیں۔‘

سرفراز نواز کا ’بلّا‘ عمران خان کے ہاتھ میں

کرکٹ کے میدان میں ایک دوسرے کے مخالف سمجھے جانے والے عمران خان اور سرفراز نواز میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں نے جب بلّے کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیا تو کامیابی نے ان کے قدم چومے۔

 حیدر عباس رضوی کے مطابق ’1988 میں پتنگ کے نشان پر لڑنے والے آزاد امیدوار دراصل مہاجر قومی موومنٹ کے لوگ تھے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو ان کے پیشوں اور کارناموں کی بنیاد پر انتخابی نشان الاٹ کیے تھے۔ انھی نشانات میں ایک انتخابی نشان بلا بھی ہے جو لاہور سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کھلاڑی سرفراز نواز کو ملا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف نے 2002 میں بلّے کا انتخابی نشان حاصل کیا جس کے پیچھے بظاہر بڑی وجہ عمران خان کرکٹ کیریئر اور ورلڈ کپ کا فاتح کپتان ہونا تھا۔
بلّے کے انتخابی نشان کے لیے پی ٹی آئی کے بانی رہنماؤں میں سے ایک اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کروائی تھی تاہم تحریک انصاف اس بات سے لاعلم تھی کہ ماضی میں یہ انتخابی نشان کسی جماعت یا امیدوار کو الاٹ ہو چکا ہے۔
عمران خان اپنی تقریروں میں اپنے مخالفین کو ’بلّے سے پھینٹی‘ لگانے کا اعلان کیا تھا جسے سوشل میڈیا پر جہاں بڑی پذیرائی ملی تھی وہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔
اس سے قبل 1997 میں پاکستان تحریک انصاف نے چراغ کے انتخابی نشان پر حصہ لیا تھا۔

حق پرست گروپ کی ’پتنگ‘

کراچی اور حیدرآباد میں مہاجر قومی موومنٹ نے انتخابات نے حصہ لیا لیکن الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے مقامی سطح پر تمام امیدواروں نے حق پرست گروپ کے نام سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا۔ ان امیدواروں میں اکثریت نے ’پتنگ‘ کا انتخابی نشان حاصل کیا۔

آزاد امیدواروں کو الاٹ ہونے والے انتخابی نشانات میں بعض نشانات ایسے بھی ہیں جو سیاسی جماعتوں کے نشانات سے مشاہبت رکھتے ہیں (فوٹو: اے پی پی)

ایم کیو ایم کے سابق ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی کے مطابق ’بڑی سوچ بچار کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کے منشور اور جدوجہد کو سامنے رکھتے ہوئے پتنگ کا انتخابی نشان لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پتنگ وسعت، اونچائی، بلند ہمتی، آسمان اور بڑی اُمیدوں کا استعارہ ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’1988 میں جب رات کو رزلٹ آنا شروع ہوئے تو بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ پتنگ کے نشان پر لڑنے والے آزاد امیدوار دراصل مہاجر قومی موومنٹ کے لوگ ہیں۔ اس رات پی ٹی وی پر ہونے والی الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران موجودہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے والد نے پہلی بار ٹی وی پر انکشاف کیا تھا کہ حق پرست گروپ دراصل مہاجر قومی موومنٹ ہے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’پارٹی نے بعد ازاں دو مرتبہ مہاجر قومی موومنٹ اور پانچ مرتبہ متحدہ قومی موومنٹ کے نام پتنگ کے نشان پر ہی حصہ لیا۔ 1993 میں آفاق احمد مہاجر قومی موومنٹ کو لے کر الگ ہوگئے تو ان کو انتخابی نشان موم بتی ہو گیا۔‘

کتاب، ترازو ، سائیکل، کار، مذہبی جماعتوں کے انتخابی ہتھیار

پاکستان کی مذہبی جماعتیں عموماً اتحادوں کی سیاست کا حصہ رہی ہیں۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے سائیکل، پاکستان اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے کار، متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کتاب پر حصہ لیتی رہی ہیں۔
تاہم 2013 میں جمیعت علمائے اسلام ف نے ایم ایم اے کے انتخابی نشان کو مستقل اپنا نشان بنا لیا جبکہ جماعت اسلامی نے ’ترازو‘ کا نشان مستقل طور پر حاصل کر لیا۔ جماعت اسلامی نے 1970 کے انتخابات میں بھی ترازو کے نشان پر ہی حصہ لیا تھا۔
2013 میں تحریک انصاف بھی اپنے نام کی مناسبت سے ترازو کا انتخابی نشان لینا چاہتی تھی لیکن الیکشن کمیشن میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی درخواستوں پر دلائل کے بعد الیکشن کمیشن نے ماضی میں جماعت کا نشان ہونے کی وجہ سے ترازوں کا پلڑا جماعت اسلامی کے حق میں جُھکا دیا۔

آزاد امیدواروں کے لیے دلچسپ انتخابی نشانات

الیکشن کیمشن کے پاس 300 سے زائد انتخابی نشانات کی ایک فہرست ہوتی ہے جن کی منظوری کمیشن نے دے رکھی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے بعد بچ جانے والے انتخابی نشانات آزاد امیدواروں کو الاٹ کیے جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 145 سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے بعد آزاد امیدواروں کے لیے بھی 178 انتخابی نشانات کی فہرست جاری کی ہے جن میں ہر نشان ہی اپنی خاصیت کی وجہ سے دلچسپ و منفرد ہے۔
ان میں آبشار، انگریزی کے حروف تہجی کے کچھ الفاظ، آڈیو کیسٹ، گدھا گاڑی، سبز مرچ، فرائی پین، تندور، توا، سرنگ، تربوز، ویل چیئر ، کھسہ اور رینچ شامل ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے ووٹوں کو نقصان پہنچانے والے انتخابی نشانات

آزاد امیدواروں کو الاٹ ہونے والے انتخابی نشانات میں بعض نشانات ایسے بھی ہیں جو سیاسی جماعتوں کے نشانات سے مشاہبت رکھتے ہیں۔ ان میں پنسل، پیچ کس، ٹوتھ برش، پیپلز پارٹی کے انتخابی نشان تیر کے قریب تر ہیں۔
اس طرح بکری، ریچھ اور کچھ دیگر جانور ن لیگ کے نشان شیر سے مشابہت رکھتے ہیں جبکہ بلّے کے مقابلے میں بیٹسمین جیسے نشانات رکھے جاتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنے ساتھ اپنے کسی عزیز کے کاغذات نامزدگی محض اس وجہ سے جمع کرواتے ہیں تاکہ مخالف سیاسی جماعت کے اُمیدوار سے ملتا جلتا انتخابی نشان الاٹ کروا کر مخالف کے ووٹ کم کیے جائیں۔
جن حلقوں میں امیدواروں کے درمیان مقابلہ سخت ہو وہاں ایسے نشانات ہار کو جیت اور جیت کو ہار میں بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

شیئر: