الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، پی ٹی آئی کو بَلے کا نشان پھر واپس
الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، پی ٹی آئی کو بَلے کا نشان پھر واپس
بدھ 10 جنوری 2024 11:37
پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی نٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور بلے کا نشان بحال کر دیا ہے۔
بدھ کو پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور سید ارشد علی نے محفوظ فیصلہ سنایا ہے اور پی ٹی آئی کو بلے کے نشان پر انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے غیرقانونی حکم کے ذریعے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان کا نشان چھینا تھا اور پشاور ہائی کورٹ نے اسے کالعدم قرر دیا ہے۔‘
’عدالت نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو بلے کا نتخابی نشان فوری طور پر واپس دیا جائے اور ویب سائٹ پر نوٹیفائی کیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے بعد پی ٹی آئی کو الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اسلام آباد ہو یا پشاور ہائیکورٹ، کہیں بھی چینلج ہوسکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انتخابات یہاں ہوئے اور سیکریٹری جنرل عمر ایوب کا تعلق بھی اس صوبے سے ہے۔ اس صوبے میں 2 بار اس پارٹی نے حکومت بھی کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ آفس اسلام آباد میں ہے، اس لیے کیس یہاں نہیں ہو سکتا غیر مناسب ہے۔‘
علی ظفر نے پشاور ہائیکورٹ اختیارات کے متعلق مختلف فیصلے عدالت میں پڑھ کر سنائے۔
بیرسٹر علی ظفر نے اپنے موقف میں کہا کہ جنہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض کیا وہ توپارٹی میں شامل ہی نہیں ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسارکیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ ’الیکشن ایکٹ کے 215 سیکشن میں انٹرا پارٹی انتخابات کا ذکر نہیں، یہ کارروائی آپ نے کیسے کی؟‘
جس پر وکیل سکندر مہمند نے بتایا کہ ’215 سکیشن تب لاگو ہوتا ہے جب اختیار ہو، تو الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے، اس لیے اس درخواست کو مسترد ہی ہونا ہے۔‘
پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کیس سماعت کے دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے استفسار کیا کہ ’جو الیکشن ہوئے اس میں تمام ارکان منتخب ہوئے یا صرف صوبے کی حد تک؟‘ جس پر قاضی جاوید ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ’پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔‘
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ’یہاں پر الیکشن ہوا ہے اور الیکشن کمیشن نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے، انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا ہے تو اس کو یہاں کیوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔‘ جس پر قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’دائرہ اختیار کے حوالے سے عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، یہ تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئے تھے وہاں پر ان کی درخواست خارج ہوئی۔‘
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ’لاہور ہائیکورٹ نے آرڈر میں لکھا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرسماعت ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔‘
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس میں کہا کہ ’یہاں پر کبھی کون تو کبھی کون لاڈلا بن جاتا ہے۔ آپ سیاسی باتیں نہ کریں قانونی نقطے پر آ جائیں، آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، ان سے نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔‘
وکیل نے کہا کہ ’جو پارٹی قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی تو اس کو کیوں سپورٹ کروں؟ انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں، ہر الیکشن کے لیے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے۔‘
کیس میں چارسدہ کے فریق کے وکیل نوید اختر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’میرا موکل ضلعی صدر رہ چکا ہے، ایک بیان پر جہانگیر کو پارٹی سے فارغ کردیا گیا۔‘
’آئین کے مطابق عہدیداروں کو منتخب نہیں کیا گیا جو لازمی ہے۔ عہدیداروں کی نئی فہرست الیکشن کمیشن کو دینی ہوتی ہے، انتخابی نشان بھی سیاسی پارٹی کو اس کی کریڈیبلٹی کے مطابق دیا جاتا ہے، پارٹی کے آئین اور ووٹر کے تحفظ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔‘
دوران سماعت ایڈوکیٹ قاضی جاوید نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’میرے موکل پی ٹی آئی کے سابقہ ضلعی جنرل سیکریٹری رہے ہیں، جنہیں میڈیا سے پتا چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں، وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔‘
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ ’آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے۔‘
’آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا۔‘ جس پر قاضی جاوید نے کہا کہ ’ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔‘