Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایبٹ آباد سے لاپتہ نوجوان پاکستان سے انڈیا کی جیل میں کیسے پہنچا؟

راولپنڈی کے رہائشی 15 سالہ محمد علی لاپتہ ہو کر انڈیا کے شہر لدھیانہ پہنچ گئے (فوٹو: اُردو نیوز)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے شہریوں کے غلطی سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار کر کے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر میں داخل ہونے کی خبروں میں حیرانی کی کوئی بات نہیں مگر پاکستان کے وہ علاقے جو انڈین سرحد سے قدرے فاصلے پر ہیں وہاں کے شہریوں کا انڈین حدود میں داخل ہونا ایک حساس اور غیرمعمولی واقعہ ہے۔
مزید پڑھیں
راولپنڈی کے رہائشی محمد بنارس کے 15 سالہ اکلوتے بیٹے محمد علی لاپتہ ہو کر انڈیا کے شہر لدھیانہ پہنچ گئے جن کا آبائی علاقہ خیبرپختونخوا کا شہر ایبٹ آباد ہے۔
محمد علی لاپتہ کیسے ہوئے؟
محمد بنارس نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’میں نے اپنے بیٹے کو ملازمت کے لیے راولپنڈی اپنے پاس بلا لیا مگر وہ گھر سے راولپنڈی آنے کے لیے ایبٹ آباد کے بس اڈّے تک تو آیا لیکن اُس کے بعد اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں چلا گیا۔‘
15 سالہ محمد علی گزشتہ برس اگست 2023 میں ایبٹ آباد کے مقامی بس اڈّے سے لاپتہ ہوئے تھے۔ محمد علی کے والد کو اُن کی انڈیا میں موجودگی کے بارے میں اُس وقت معلوم ہوا جب ڈیڑھ ماہ قبل انڈیا کے شہر لدھیانہ سے انہیں واٹس ایپ پر کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ محمد علی انڈیا پہنچ گئے ہیں۔
محمد علی نے اپنے والد کے واٹس ایپ نمبر پر دو کالز کیں۔ پہلی واٹس ایپ کال کا دورانیہ چھ سیکنڈ اور دوسری کا دورانیہ 11 سیکنڈ تھا۔
محمد علی اس وقت انڈیا کے شہر لدھیانہ میں بچوں کی جیل میں ہیں۔
اُن کے والد محمد بنارس نے بتایا کہ ’میرا بیٹا شملہ پوری نامی جیل (بیٹے کی بتائی گئی) میں قید ہے۔‘
محمد علی انڈیا کیسے پہنچے؟
ایبٹ آباد پولیس کے مطابق محمد علی کی گمشدگی پر اُن کے والد محمد بنارس نے مقامی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کروائی جس پر پولیس اپنے طور پر تفتیش کر رہی تھی۔ ’محمد علی انڈیا کیسے پہنچے؟ اس حالے کچھ بھی کہنا نہ صرف قبل از وقت ہے بلکہ اس حوالے سے مزید تفتیش کی ضرورت بھی ہے۔‘

ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے بتایا کہ انہیں واقعے کا فی الحال کوئی علم نہیں تاہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان قیدیوں کی حوالگی کا قانون موجود ہے (فوٹو: اے ایف پی)

محمد بنارس نے بتایا کہ ’میرے بیٹے نے نہم جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اُسے پڑھائی میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اُسے کرکٹ کھیلنے کا شوق ہے۔ ہو سکتا ہے وہ کسی دور دراز مقام پر کرکٹ کھیلنے گیا ہو اور پھر غلطی سے سرحد پار چلا گیا ہو۔‘
’خدشہ ہے کہ بیٹا انسانی سمگلرز کے ہاتھ نہ لگ گیا ہو‘
پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرون ممالک جانے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ محمد بنارس کو بھی خدشہ ہے کہ کہیں اُن کا بیٹا انسانی سمگلرز کے چُنگل میں نہ پھنس گیا ہو۔
انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے یہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں میرا بیٹا انسانی سمگلرز کے ہاتھ نہ لگ گیا ہو۔ تاہم تفتیشی اداروں نے ابھی میرے اس خدشے کی تصدیق نہیں کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے ایک بیٹے کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔ میں اور میری اہلیہ اب مزید کسی اور غم کے متحمل نہیں ہو سکتیں۔ محمد علی کی والدہ غم سے نڈھال ہیں اور ان کے شب و روز  بیٹے کی واپسی کی امید پر گزر رہے ہیں۔‘
محمد بنارس کے بقول انڈیا سے محمد علی کی واپسی کے لیے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ ’محمد علی کے انڈیا  کی جیل میں قید ہونے کی تصدیق کے بعد ہم انڈیا کے سیکریٹری خارجہ اور پاکستان میں انڈین ہائی کمیشن کو درخواست دے رہے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کو بھی اس معاملے پر اعتماد میں لیں گے۔‘
محمد  بنارس کے مطابق ان کے بیٹے کی واٹس ایپ کال کی تفصیلات اور دیگر متعلقہ دستاویزات بھی پاکستانی اور انڈین حکام کے حوالے کی جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے طور پر تفتیش کی ہے جن کے مطابق میرا بیٹا کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں ہے۔‘
محمد علی کی انڈیا میں موجودگی کی اطلاع نہیں ملی: ترجمان دفتر خارجہ
اُردو نیوز نے جب اس معاملے کی تفصیلات جاننے کے لیے پاکستان کے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا تو ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے بتایا کہ انہیں اس واقعے کا فی الحال کوئی علم نہیں تاہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایسے قیدیوں کی حوالگی کا قانون موجود ہے۔

پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط نے بتایا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)

انہوں نے کہا کہ محمد علی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے تحقیقات کریں گے۔ معاملے کی شفافیت کا یقین ہونے پر ہی متعلقہ طریقۂ کار پر عمل کریں گے۔
انڈیا میں قید محمد علی کی واپسی کیسے ممکن ہے؟
پاکستان انڈیا سے 2008 کے معاہدے کے تحت محمد علی کی واپسی کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
انڈیا میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط نے بتایا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدہ انہیں تین ماہ سے قید شہریوں کی معلومات کے تبادلے کا پابند بناتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو پاکستان محمد علی تک کونسلر رسائی حاصل کر سکتا ہے جس کے بعد دونوں طرف سے معاملے کے مستند ہونے کے بعد ہی محمد علی کی پاکستان واپسی ممکن ہو سکتی ہے۔‘
محمد علی کی واپسی کے لیے انڈیا کی رضامندی ضروری
عبد الباسط نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’محمد علی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ بھی ہو تو اس صورت میں بھی یہ ضروری ہے کہ انڈین حکام پاکستان کے اس بیانیے کو تسلیم کریں۔ دوسری جانب سے اگر کوئی جواز پیش کیا جاتا ہے تو یہ معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔‘
عبد الباسط کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اُن کے دور میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن پر متعلقہ طریقۂ کار کو اپناتے ہوئے حل کی جانب بڑھا گیا۔

شیئر: