جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک کے دنوں کی بات ہے، میں لاہور کے ایک بزرگ صحافی کے پاس حاضر ہوا۔ ان کا صحافتی تجربہ نصف صدی سے تجاوز کر چکا تھا۔ ان دنوں ملک میں مایوسی کی لہر دوڑ رہی تھی۔ جنرل مشرف نے پوری عدلیہ ہی اڑا دی تھی۔ پی سی او جج صاحبان البتہ موجود تھے۔ دوسری طرف لال مسجد آپریشن بھی ہو چکا تھا۔ ٹی وی چینلز کا عہد شروع ہو چکا تھا جن کی نان سٹاپ کوریج نے پورے سماج کو مضطرب کر دیا۔
اپنے شعبے کے بہت سینیئر صحافی کے پاس جانے کا مقصد ان سے رہنمائی لینے کے ساتھ امید کی کوئی کرن تلاش کرنا تھا۔ چائے کے کپ پر گپ شپ ہوتی رہی۔ انہوں نے ایک نکتہ کی بات سمجھائی، کہ ’صحافت ہو یا سیاست، اس میں بہت بار لگتا ہے کہ ہر طرف سیاہ بادل چھائے ہیں، تاریکیوں کا دور دورہ ہے اور روشنی کی کرن موجود نہیں۔ ایسے میں آپ کو وہی کرنا چاہیے جس کے آپ مکلف ہیں۔ یعنی جو کچھ آپ کر سکتے ہیں، وہی کرتے جائیں۔ رات جتنی لمبی ہو، اتنا ہی صبح ہونے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ بطور صحافی آپ اپنا کام کرتے رہیں، چیزیں بدلتی رہیں گی، دور آتے جاتے رہیں گے۔‘
مزید پڑھیں
-
لیول پلیئنگ فیلڈ: پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لیNode ID: 827696