جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدلیہ بحالی تحریک کے دنوں کی بات ہے، میں لاہور کے ایک بزرگ صحافی کے پاس حاضر ہوا۔ ان کا صحافتی تجربہ نصف صدی سے تجاوز کر چکا تھا۔ ان دنوں ملک میں مایوسی کی لہر دوڑ رہی تھی۔ جنرل مشرف نے پوری عدلیہ ہی اڑا دی تھی۔ پی سی او جج صاحبان البتہ موجود تھے۔ دوسری طرف لال مسجد آپریشن بھی ہو چکا تھا۔ ٹی وی چینلز کا عہد شروع ہو چکا تھا جن کی نان سٹاپ کوریج نے پورے سماج کو مضطرب کر دیا۔
اپنے شعبے کے بہت سینیئر صحافی کے پاس جانے کا مقصد ان سے رہنمائی لینے کے ساتھ امید کی کوئی کرن تلاش کرنا تھا۔ چائے کے کپ پر گپ شپ ہوتی رہی۔ انہوں نے ایک نکتہ کی بات سمجھائی، کہ ’صحافت ہو یا سیاست، اس میں بہت بار لگتا ہے کہ ہر طرف سیاہ بادل چھائے ہیں، تاریکیوں کا دور دورہ ہے اور روشنی کی کرن موجود نہیں۔ ایسے میں آپ کو وہی کرنا چاہیے جس کے آپ مکلف ہیں۔ یعنی جو کچھ آپ کر سکتے ہیں، وہی کرتے جائیں۔ رات جتنی لمبی ہو، اتنا ہی صبح ہونے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ بطور صحافی آپ اپنا کام کرتے رہیں، چیزیں بدلتی رہیں گی، دور آتے جاتے رہیں گے۔‘
مزید پڑھیں
-
لیول پلیئنگ فیلڈ: پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے درخواست واپس لے لیNode ID: 827696
پھر انہوں نے مثال دی کہ ’جب بھٹو صاحب شملہ معاہدے کے بعد واپس آئے تو ہمیں لگا کہ یہ ایشو ہی ختم ہو گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اب بے اثر ہو جائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور چند برسوں کے اندر دوبارہ مسئلہ کشمیر اٹھ کر سامنے آ گیا۔ ہم جسے قصہ پارینہ سمجھ رہے تھے، وہ پھر سے فلیش پوائنٹ بن گیا۔‘
آج کل کئی نوجوان صحافی حالات کی مایوسی سے شاکی ہو کر میرے جیسے لوگوں کے پاس آتے ہیں یا واٹس ایپ پر میسج داغ دیتے ہیں۔ انہیں وہی جواب دیتا ہوں۔ حالات خواہ جیسے بھی ہو جائیں، سیاسی جبر جس قدر بڑھ جائے، لکھنے اور بات کہنے کی سپیس کم ہو گئی ہو، تب بھی ہمیں اپنا کام ہی کرنا ہے۔ جس حد تک ہو سکے احتیاط سے، سلیقے سے، بین السطور اپنی بات کہتے رہیں، لکھتے جائیں۔
یہی مشورہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کے لیے بھی ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر یہی بحث اور سوالات چل رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس آپشنز کیا بچی ہیں؟ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کو کیا کرنا چاہیے؟
انہیں مشورہ ہے کہ وہ کریں جو آج کل ٹی20 لیگز میچز میں آخری اوورز کرانے والے باﺅلر کرتے ہیں۔ انتہائی درجے کی سیدھی بیٹنگ پچز ہیں، باﺅنڈری بہت چھوٹی ہو چکی، پر بلے باز اپنا بیٹ اٹھائے گھور رہے ہیں، چھکوں، چوکوں کی بارش کرنے۔ بالر غریب جتنا بھی تیز ہو، سوئنگ کا بڑا ماہر ہے، اچھا یارکر کرا سکے، اسے آخر میں پٹنا ہی ہے۔ اس کے باوجود وہ بے چارے ہمت کر کے، منہ بنائے بغیر گیند کراتے ہیں۔ چھکا کھا کر سکون سے پھر بالنگ کرانے چل پڑتے ہیں۔ نتائج جو بھی ہوں، انہیں تو بالنگ ہی کرانی ہے۔ ایسے میں بریک تھرو ہو جائے تو ان کی بلے بلے ہو جاتی ہے، ورنہ ٹھیک ہے اگلی بار دیکھ لیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان کھو چکی۔ الیکشن میں وہ بیلٹ پیپرز پر موجود نہیں۔ مخصوص نشستیں انہیں اب نہیں مل پائیں گی۔ ہر حلقے میں الگ الگ امیدوار اوٹ پٹانگ انتخابی نشان پر لڑے گا۔ لاہور شہر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 44 نشستیں ہیں توپھر تحریک انصاف یہاں پر 44 الگ الگ نشانوں پر الیکشن لڑے گی۔ اس کا مطلب انفرادی سطح کی کمپین۔ ہر حلقے کے ووٹر کو الگ الگ نشان یاد کرانے ہیں۔ الیکشن ڈے پر ہونے والی ممکنہ دھینگا مشتی، زور وجبر کی آزمائش الگ ہو گی۔
اس کے باوجود پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنا چاہیے۔ بائیکاٹ ان کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔ وہ اپنے سوشل میڈیا سکِلز استعمال کریں یا اگر ڈور ٹو ڈور مہم کی سہولت ملے تو اس سے فائدہ اٹھائیں یا ووٹر کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے کوئی اور حربہ استعمال کریں۔ انہیں بہرحال الیکشن ہی لڑنا ہے، کوئی اور آپشن نہیں۔
تحریک انصاف کے کچھ لوگ یہ سوچ کر دلبرداشتہ ہیں کہ ان کی حمایت سے جیتنے والے آزاد امیدوار اگر کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو گئے تب ان کی محنت ضائع جائے گی۔ یہ رسک تو موجود ہے اور پی ٹی آئی کو لینا ہی ہو گا۔ اگر آزاد جیتنے والوں میں سے کچھ ٹوٹ گئے تب بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ بعض الیکشن میدان میں موجود ہونے اور ووٹر سے جڑے رہنے کے لئے لڑے جاتے ہیں۔
ایم کیو ایم الطاف کے عروج کے دنوں میں جماعت اسلامی واحد جماعت تھی جو کراچی میں ان کا مقابلہ کرتی تھی۔ سوا لاکھ، ڈیڑھ لاکھ ووٹ کے مقابلے میں جماعت کے امیدوار 20، 25 ہزار ووٹ سے زیادہ نہیں لے سکتے تھے، وہ مگر ہر بار الیکشن ضرور لڑتے۔ اس کا فائدہ انہیں ایم ایم اے کی صورت میں 2002 میں ہوا۔
