حوثی اور امریکی حملوں سے کشیدگی میں اضافہ خطرناک ہے: سعودی وزیر خارجہ
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے مملکت کو ’بہت تشویش‘ ہے کہ یمن کے حوثیوں کے حملوں اور حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں کی وجہ سے بحیرہ احمر میں کشیدگی بے قابو ہو سکتی ہے اور خطے میں تنازع بڑھ سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ ’میرا مطلب ہے کہ ہم بہت پریشان ہیں۔ آپ جانتے ہیں ہم خطے میں ایک بہت مشکل اور خطرناک وقت سے گزر رہے ہیں۔ اسی لیے ہم کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا ’فرید زکریا‘ کو یہ انٹرویو میں اتوار کو نشر کیا جائے گا۔
گذشتہ کئی ہفتوں سے بحیرہ احمر اور اس کے اطراف بحری جہازوں پر ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے حملوں نے ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت میں رُکاوٹ پیدا کر دی ہے اور غزہ میں جنگ کی شدت میں اضافے نے بڑی طاقتوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ مملکت بحری جہازوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر یقین رکھتی ہے اور خطے میں کشیدگی کم کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے سی این این کو بتایا کہ ’ہم جہاز رانی کی آزادی پر بہت یقین رکھتے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جس کی حفاظت کی ضرورت ہے لیکن ہمیں خطے کی سکیورٹی اور استحکام کا تحفظ بھی کرنا ہو گا۔ لہٰذا جتنا ممکن ہے ہم اس صورتحال پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔‘
یمن کے زیادہ تر حصّے پر قابض حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حملے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ہیں۔
گذشتہ ہفتے سے امریکہ یمن میں حوثی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے اور رواں ہفتے اس نے حوثی ملیشیا کو ’دہشت گرد‘ گروپوں کی فہرست میں دوبارہ سے شامل کر دیا۔
صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو کہا تھا کہ فضائی حملے جاری رہیں گے یہاں تک کہ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ حوثیوں کے حملوں کو نہیں روک رہے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام غزہ سے باہر کشیدگی پھیلنے کا خطرہ ہے جہاں مقامی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 24 ہزار سے زائد افراد اسرائیل کے حملے میں مارے گئے ہیں۔
اسرائیل نے سات اکتوبر کو فلسطینی اسلام پسند گروپ کے حملے کے بعد غزہ میں جوابی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 12 سو افراد ہلاک ہوئے۔