Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کا لاہور میں جلسہ مخالفین کو ٹف ٹائم دینے کیلیے کافی ہے؟

پیپلزپارٹی کا جلسہ اتوار کو لاہور کے علاقے ٹاون شپ میں منعقد ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور کے حلقہ این اے 127 میں اتوار کو منعقدہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا جلسہ اس وقت موضوعِ بحث ہے۔ پیپلزپارٹی اس جلسے کو لاہور میں اپنی پذیرائی سے تعبیر کر رہی ہے تو مخالفین اسے ایک ناکام کوشش قرار دے رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کا یہ جلسہ اتوار کو لاہور کے علاقے ٹاون شپ میں منہاج القران یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں منعقد ہوا تھا۔
فروری کے عام انتخابات کے تناظر میں یہ کسی بھی سیاسی جماعت کا لاہور میں ہونے والا پہلا جلسہ ہے۔ بلاول بھٹو کے علاوہ آصفہ بھٹوزرداری اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس جلسے میں شرکت کی۔ اس حلقے میں بلاول بھٹو زرداری کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے عطااللہ تارڑ سے ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں امیدواروں کا تعلق اس حلقے سے نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے اس حلقے سے سابق امیدوار اسلم گل نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پیپلزپارٹی کے جلسے نے مخالفین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ انہیں توقع ہی نہیں تھی کہ بلاول اپنی جلسے کی گیم کو اتنا آگے لے کر جا سکتے ہیں۔‘
اسلم گل کے بقول ’لوگوں نے جس جوش وخروش سے شرکت کی اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس شہر پر حق حکمرانی کا دعوی کرنے والوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس جلسے میں کتنے افراد شریک تھے تو اسلم گل نے دعویٰ کیا کہ ’پیپلزپارٹی کے جلسے میں 30 ہزار لوگ شریک ہوئے اور حالیہ تاریخ کا یہ پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا جلسہ ہے۔‘
اسلم گل کے دعوے کے برعکس پولیس اور انٹیلی جنس اداروں نے اس جلسے میں پانچ سے سات ہزار افراد کی شرکت کی رپورٹ جاری کی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد  کا کہنا ہے کہ ’بلاول کی تقریر بھی بہت سخت تھی‘ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب اس حلقے سے لیگی امیدوار عطاللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ ’اگر پیپلزپارٹی کی یہ جلسی ان کی لاہور میں کل طاقت کو ظاہر کرتی ہے تو پھر بلاول بھٹو کو ابھی سے ہی اپنی ہار کا اعلان کر دینا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ویسے یہ جلسہ پیپلزپارٹی کے بجائے پاکستان عوامی تحریک کا رینٹ اے جلسہ تھا جس میں بلاول کو بلا کر تقریر کروائی گئی ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو جلسے کا مقام اور فوٹیج دیکھ لیں۔ آپ کو ہر طرف عوامی تحریک کے جھنڈے نظر آئیں گے۔‘ 
عطاللہ تارڑ نےاپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’عوامی تحریک نے خود کہا تھا کہ بلاول کی حمایت ایک جلسے کے ذریعے کی جائے گی اور سب جانتے ہیں عوامی تحریک کے پاس ورکرز ہیں لیکن کیا وہ اس حلقے کے ووٹر بھی ہیں اس بات کا پتہ اب آٹھ فروری کو انشا اللہ چلے گا۔‘
یاد رہے کہ حالیہ تاریخ میں پیپلزپارٹی کا لاہور میں یہ پہلا بڑا عوامی جلسہ مانا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں گزشتہ انتخابات میں بھی مہم چلائی تھی لیکن کسی بڑے گراؤنڈ میں جلسہ نہیں کیا تھا۔
اسلم گل والے ضمنی انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی کی ساری قیادت اسی حلقے میں موجود رہی، خود زرداری اور بلاول بھی مہم چلائے آئے لیکن کسی بڑے اکٹھ کا اہتمام نہیں کیا گیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں گزشتہ انتخابات میں بھی مہم چلائی تھی لیکن کسی بڑے گراؤنڈ میں جلسہ نہیں کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی مبصرین کے مطابق پیپلزپارٹی نے بے نظیر بھٹو کی قیادت میں لاہور میں بڑا جلسہ 1997 کے انتخابات میں کیا تھا۔ اس کے بعد جب وہ 2007 میں واپس آئیں تو کراچی کے بعد راولپنڈی میں جلسے کیے تھے اور لاہور جلسے کی باری آنے سے پہلی ہی ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار اور انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی افتخار احمد کہتے ہیں کہ ’بلاول بھٹو کا شو کسی حد تک اچھا تھا۔ لوگ چارجڈ بھی تھے لیکن اس جلسے کی بنیاد پر الیکشن کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کیونکہ اس بار الیکشن ٹرن آوٹ پر منحصر ہے۔‘
انہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ٹرن آؤٹ بڑا ہوا تو صورت حال یکسر بدل سکتی ہے۔ ویسے تو لاہور پہلے پیپلزپارٹی کا تھا پھر ن لیگ نے پیپلزپارٹی کی جگہ لے لی اور اب تحریک انصاف اس جگہ پہنچ چکی ہے۔‘
افتخار احمد  کا مزید کہنا تھا کہ ’بلاول کی تقریر بھی بہت سخت تھی جس سے آئندہ اگر مخلوط حکومت بننے کی بات آتی ہے تو اس میں بھی مشکلات ہو سکتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کو اس بار حلقے سے عوامی تحریک کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے جس سے کچھ فرق پڑ سکتا ہے اور جلسے میں بھی اس کی جھلک نظر آئی ہے۔‘

شیئر: