Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول کی نواز شریف کو مباحثے کی دعوت ’نُورا کُشتی یا سوچ میں تبدیلی؟‘

بلاول بھٹو زرداری اس سے قبل جلسے میں بھی نواز شریف کو مباحثے کا چیلنج دے چکے ہیں (فائل فوٹو: مریم نواز فیس بُک)
پاکستان میں جیسے جیسے الیکشن کی تاریخ قریب آرہی ہے ملک کی سیاسی گہماگہمی میں بھی اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم کے دوران مسلم لیگ ن کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور اب انہوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو مناظرے کی دعوت بھی دے دی ہے۔
جمعے کو چیئرمین پی پی پی نے ایکس (ٹوئٹر) پر مسلم لیگ ن کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار میاں نواز شریف کو الیکشن سے قبل کسی بھی وقت براہ راست مباحثے کی دعوت دی۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں مسلم لیگ ن کے وزارت عظمٰی کے امیدوار نواز شریف کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ 8 فروری سے پہلے کسی بھی وقت، کہیں بھی مجھ سے مباحثہ کرلیں۔‘
’عالمی سطح پر صدارتی اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں، جس میں وہ ووٹرز کو اپنے منصوبوں کے بارے میں اہم نکات بیان کرتے ہیں۔‘
بلاول بھٹو زرداری نے ووٹرز کی آگاہی کے حوالے سے لکھا کہ ’ووٹنگ کے عمل سے پہلے شفافیت کے لیے ووٹرز کے لیے یہ آگاہی بہت ضروری ہے۔‘
سوشل میڈیا پر کہیں مباحثے کی اس دعوت کو سراہا جا رہا ہے تو کہیں اسے ناممکن قرار دیا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ مباحثہ ہوتا ہے تو کون جیتے گا؟
صحافی شاہد اسلم، بلاول بھٹو زرداری کی دعوت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’یہ زبردست رجحان ہوسکتا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے سارے امیدواروں کو ایسے مناظرے کرنے چاہییں۔‘
وہ اس مباحثے کے مثبت پہلو کو اُجاگر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ’لوگ براہ راست ان کے مستقبل کے پلانز، لائحہ عمل اور وژن دیکھ کر فیصلہ کریں کہ ووٹ کسے دینا چاہیے۔‘
’امید ہے میاں صاحب یا شہباز شریف صاحب یہ چیلنج قبول کریں گے۔‘
ایکس ہینڈل زوہیب اے ڈی پر لکھا گیا کہ ’بلاول بھٹو کے لیے یہ ایک تعریفی ٹویٹ ہے۔ اس طرح کے مباحثے ضرور ہونے چاہییں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں خوش ہوں کہ سیاسی رویے تبدیل ہو رہے ہیں۔ مستقبل کی سیاسی سرگرمیوں سے نوجوان نسل کو آگاہ ہونا چاہیے۔‘
سوشل میڈیا پر بلاول بھٹو کے مباحثے کی دعوت پر انہیں سراہا تو جا رہا ہے لیکن ایک ایکس صارف محسن اقبال اسے نورا کشتی کا نام دے رہے ہیں۔
محسن اقبال لکھتے ہیں کہ ’نورا کُشتی شروع ہو چُکی ہے اور الیکشن کے بعد یہ پھر ایک ساتھ ہو کر جوڑ توڑ کرتے نظر آئیں گے۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’پچھلے چالیس سال کی سیاست آج تک جاری ہے کہ بس عوام کو بے وقوف بناؤ۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی رہنما آصفہ بھٹو بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بلاول بھٹو کے ساتھ مباحثے کا چیلنج دے چکی ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال بھی بلاول بھٹو کو نارووال کا موازنہ لاڑکانہ سے کرنے کا چیلنچ کر چکے ہیں۔

شیئر: