Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ٹکٹ، ن لیگ کا انتخابی حربہ یا سیاسی جُوا؟

مسلم لیگ ن نے صوبہ پنجاب کے 130 حلقوں میں اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے (فوٹو: روئٹرز)
اٹک سے رحیم یار خان تک موزوں امیدواروں کا چناؤ، علاقائی دھڑوں کی حمایت، بااثر سیاسی  خاندانوں اور شخصیات کی شمولیت اسلام اباد کے ایوان اقتدار تک پہنچانے والی سیڑھی کے زینے ہیں۔
اٹھ فروری 2024 کے الیکشن کے لیے مسلم لیگ ن نے صوبہ پنجاب کے 130 حلقوں میں اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔
اس بار 11 انتخابی حلقوں میں اپنے سیاسی حلیفوں کی حمایت کی وجہ سے ن لیگ نے اپنے کسی رہنما کو ٹکٹ جاری نہیں کیا مگر اس سیاسی جماعت کی انتخابی حکمت عملی کا چونکا دینے والا پہلو 2018 کی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے 10 ممبران قومی اسمبلی کو اپنے امیدوار کے طور پر نامزد کرنا ہے۔
یہ سابق ممبران قومی اسمبلی وہ ہیں جنہوں نے اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران اپنی پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔
ضمنی الیکشن کے تباہ کن نتائج
پاکستان مسلم لیگ ن میں ایسا ہی فیصلہ 17 جولائی 2022 کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے امیدواروں کے چناؤ کے وقت بھی کیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے نتائج نے نہ صرف پنجاب میں اس پارٹی کی حکومت کی رخصتی کا اہتمام کیا تھا بلکہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کے اعتماد اور ساکھ کو بھی بری طرح مجروح کر دیا تھا۔
وفاق میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن نے پی ٹی ائی کے محنرف ارکان کی مدد سے حکومت بنائی تھی۔
اس وقت کے وزیراعلٰی حمزہ شہباز کی حکومت کی مضبوطی کے لیے تحریک انصاف کے 20 ممبران اسمبلی نے اسمبلی کی ممبرشپ چھوڑ کر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
17 جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملک کے سیاسی منظر پر ہلچل پیدا کر دی تھی۔
پی ٹی ائی نے 20 میں سے 15 حلقوں پر کامیابی حاصل کی، مسلم لیگ ن کے صرف چار امیدوار جیت سکے۔
ان نتائج نے ن لیگ کا دو دہائیوں سے ضمنی الیکشن میں ناقابل شکست رہنے کا تاثر پارہ پارہ کر دیا تھا۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے رانا قاسم نون کو ملتان کے حلقے کا ٹکٹ دیا گیا ہے (فوٹو: رانا قاسم نون، فیس بک)

اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کے سابق ارکان اسمبلی کو اپنی صفوں میں جگہ دینے کے فیصلے پر پارٹی کے اندر اور باہر کا ردعمل تھا۔
اس تاریخی تناظر میں کیا مسلم لیگ ن نے ماضی کے سیاسی مخالفین کو اپنا کر ویسی ہی سیاسی غلطی کی ہے یا اس بار نتائج مختلف ہونے کے امکانات موجود ہیں؟
پنجاب کے سیاسی منظر نامے اور انتخابی سیاست سے گہری آشنائی رکھنے والے تجزیہ نگاروں ماجد نظامی اور طاہر مہدی کی ارا جاننے سے قبل ان امیدواروں کے بارے میں جان لیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے نئے سیاسی ہمسفر کون ہیں؟
گزشتہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف کا حصہ رہنے والے  10 سابق اراکین قومی اسمبلی کی اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔
اس خطے کی مخصوص سیاسی روایات میں جماعتیں تبدیل کرنے کی روش نہ تو خلاف توقع ہے اور نہ ہی زیادہ ناپسندیدہ
ملتان کے دو حلقوں این اے 148 اور این اے 153 سے احمد حسن اور رانا قاسم نون کو پی ایم ایل این نے انے والے انتخابات کے لیے اپنے امیدوار نامزد کیا ہے۔
ان دونوں نے 2018 میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
احمد حسن کا مقابلہ اس بار سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے ہے۔
گزشتہ الیکشن میں انہوں نے سید عبدالقادر گیلانی کو شکست دی تھی جو یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی قیادت نے پچھلے الیکشن میں پی ٹی آئی کی جانب سے رکن قومی اسمبلی بننے والوں کو نامزد کیا ہے (فوٹو: پی ایم ایل این، ایکس)

رانا قاسم نون پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کی جانب سے الیکشن نہیں لڑ رہے ماضی میں وہ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے ممبر اسمبلی بن چکے ہیں۔
2018 میں ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن ہی کے ایک سابق رکن قومی اسمبلی دیوان عاشق بخاری کے بیٹے ذوالقرنین بخاری سے ہوا تھا۔ رانا قاسم نون کی جیت کی برتری تین ہزار کے قریب تھی۔
مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے مخدوم سید  باسط بخاری اور عامر طلال گوپنگ اپریل 2022 تک تحریک انصاف کا حصہ تھے۔
اس بار وہ مسلم لیگ ن کے انتخابی نشان شیر پر الیکشن لڑ رہے ہیں، یہ دونوں رہنما اپنے خاندانی اثر و رسوخ اور مضبوط دھڑوں کی حمایت کی وجہ سے الیکٹیبز میں شمار ہوتے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حلقہ 185 مظفرگڑھ سے گزشتہ الیکشن میں ازاد حیثیت میں کامیاب ہو کر تحریک انصاف  میں شمولیت اختیار کرنے والے باسط سلطان بخاری کو مسلم لیگ ن نے ایک نئے حلقہ این اے 176 مظفرگڑھ دو سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا ہے۔
ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اور ان انتخابات میں پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ جمشید دستی سے ہوگا۔ باسط بخاری نے پچھلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مہر ارشد احمد خان کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
مظفر گڑھ کے ایک اور انتخابی حلقے این اے 178 سے گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے نواب افتخار احمد خان نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس علاقے سے اس بار عامر بلال  گوپنگ  ن لیگ کے امیدوار ہیں۔

این اے 96 فیصل آباد کا ٹکٹ طلال چوہدری کو نہ دیے جانے کے فیصلے کو پارٹی میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا (فوٹو: پی آئی ڈی)

انہوں نے پچھلا الیکشن مظفر گڑھ کے ایک اور حلقے این اے 186سے جیتا تھا جہاں ان کا مقابلہ جمشید دستی سے ہوا تھا۔ اس بار ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے جاوید سعید کاظمی اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ داؤد جتوئی ہیں۔
پچھلے الیکشن میں پی ایم ایل این کا ٹکٹ واپس کر کے ازاد امیدوار کے طور پر این اے 190  ڈیرہ غازی خان سے کامیابی حاصل کرنے والے سردار امجد فاروق کھوسہ اس بار این اے 183 ڈیرہ غازی خان تین سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔
پچھلے الیکشن میں انہوں نے پی ٹی ائی کے امیدوار اور ماضی میں مسلم لیگ ن کے دور میں گورنر پنجاب رہنے والے سردار ذوالفقار کھوسہ کو شکست دی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
اس بار ان کا مقابلہ خواجہ شیراز سے ہے جو 2018 میں پی ٹی ائی کے نمائندے کے طور پر یہاں سے جیت چکے ہیں ان کے پرانے حریف سردار ذوالفقار کھوسہ اس بار کسی حلقے سے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔
سابق نگران وزیراعظم کے بیٹے مدمقابل
عبدالغفار وٹو نے 2018 میں این اے 160 بہاول نگر سے ازاد امیدوار کے طور پر الیکشن جیتا تھا جس کے بعد ان کی اگلی منزل پی ٹی ائی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے انے والے انتخابات کے لیے انہیں اپنا امیدوار بنایا ہے، پچھلی بار ان کا مقابلہ ان کی موجودہ جماعت کے سید محمد اصغر سے ہوا تھا جس میں عبدالغفار وٹو کو 10 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

اس وقت مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم جاری ہے اور جلسوں میں ان کی اعلٰی قیادت شرکت کر رہی ہے (فوٹو: پی ایم این، ایکس)

بہاولپور کے حلقہ این اے 166 پر سید سمیع الحسن گیلانی اس بار شیر کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، اس حلقے سے پچھلی بار ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کامیاب ہوئے تھے۔ جو اب پی ایم ایل این کی حمایت سے  دوسرے انتخابی حلقے سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔
سید سمیع الحسن گیلانی گزشتہ الیکشن میں این اے 174 سے جیتے تھے ان کے مدمقابل امیدواروں میں ان کے سگے بھائی سید علی حسن گیلانی بھی شامل تھے۔
اس بار ان کا مقابلہ پی ٹی ائی کی سابق رکن اسمبلی کنول شوزب اور پیپلز پارٹی کے امیدوار اور ان کے بھائی علی حسن گیلانی سے ہو گا۔
سید مبین احمد نے رحیم یار خان کے حلقہ این اے 169 سے گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے خواجہ غلام رسول کوریجہ کو ہرا کر کامیابی حاصل کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کے بعد اب وہ مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخدوم مرتضٰی محمود سے ہوگا جو گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایک اور حلقے سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے این اے 96  فیصل اباد سے طلال چوہدری کو ٹکٹ نہ دینے کے فیصلے کو دیگر کی نسبت زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس علاقے سے گزشتہ الیکشن میں طلال چوہدری سے معمولی سی سبقت سے جیتنے والے نواب شیر وسیر اس بار ن لیگ کے امیدوار ہیں۔
ان کا ماضی کا سیاسی سفر پیپلز پارٹی کے ساتھ رہا ہے۔ 1993 میں صوبائی اور 2008 میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر پیپلز پارٹی کی جانب سے کامیابی حاصل کی۔

مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے مخدوم سید باسط بخاری اپریل 2022 تک پی ٹی آئی کا حصہ تھے (فوٹو: سید باسط بخاری، فیس بک)

اب ان کا مقابلہ پی ٹی ائی کے رائے وحید خان کھرل اور پیپلز پارٹی کے رائے شاہ جہان کھرل سے ہو گا۔
  قومی اسمبلی کے حلقے این اے 189راجن پور سے سردار ریاض مزاری بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پچھلا الیکشن پی ٹی ائی کے ٹکٹ پر جیتا تھا۔ اس بار وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
ان کا تعلق علاقے کے معروف سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد 1954 کی دستور ساز اسمبلی کے سب سے کم عمر ممبر تھے۔ ایوب اور بھٹو دور میں قومی اسمبلی کے ممبر بنے۔
بعد میں وہ 1993 میں کچھ عرصہ کے لیے نگران وزیراعظم بھی رہے۔
یہ بلخ شیر مزاری کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ اس بار بلخ شیر مزاری کے ایک  بیٹے ریاض مزاری کے مقابلے میں ان کا دوسرا بیٹا زاہد محمود مزاری انتخابی میدان میں موجود ہے۔
کیا ن لیگ نے گھاٹے کا سودا کیا؟
پاکستان مسلم لیگ نواز کا حصہ بننے والے ان بااثر  سیاسی رہنماؤں کے ماضی اور انداز سیاست کو سامنے رکھتے ہوئے کیا  یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی طور پر انہیں اپنانے کا فیصلہ ایک سیاسی جوا بھی ثابت ہو سکتا ہے؟
2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو پنجاب سے 136 نشستیں حاصل ہوئی تھیں جو کہ 2018 میں ادھی سے بھی کم ہو کر60 رہ گئیں۔
پچھلے الیکشن میں اس جماعت کو سینٹرل پنجاب کی نسبت جنوبی پنجاب سے بہت کم سیٹیں مل پائیں۔
اسی لیے وہ پی ٹی ائی کے منحرف اراکین کی شمولیت کو پنجاب سے ماضی کی نسبت بہتر نتائج کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
پنجاب کے ان 10 انتخابی حلقوں کے گزشتہ نتائج اور موجودہ سیاسی صف بندی کا تجزیہ ن لیگ کی سیاسی اور انتخابی حکمت عملی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

بہاولپور کے حلقہ این اے 166 پر سید سمیع الحسن گیلانی اس بار شیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں (فوٹو: پی ایم ایل این، سوشل میڈیا)

مسلم لیگ نواز نے جن امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے ان میں سے چار کے انتخابی حلقے تبدیل کر دیے ہیں۔ وہ پچھلے الیکشن میں دوسرے حلقوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ اس طرح ن لیگ نے پارٹی کی مقامی قیادت کے متوقع ردعمل کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
جولائی 2022 کے صوبائی ضمنی الیکشن میں سب سے زیادہ ردعمل انتخابی حلقوں میں 2018 میں رنر اپ رہنے والے مسلم لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے ایا تھا۔
گزشتہ الیکشن کے نتائج کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اب کی بار قومی اسمبلی کے امیدواروں کے مدمقابل دو حلقوں میں پیپلز پارٹی اور دو میں تحریک انصاف اور ایک حلقے میں ق لیگ کا امیدوار دوسرے نمبر پر رہا تھا۔
پنجاب میں حلقوں کی سیاست کی اہمیت اور مختلف سیاسی خاندانوں کی انتخابی ترجیحات کا گہرا ادراک رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی مسلم لیگ ن کے لیے جولائی 2022 جیسے غیرمتوقع اور منفی نتائج کے امکانات کو رد کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ عام انتخابات کی فضا ضمنی الیکشن سے مختلف ہوتی ہے۔ اس میں کچھ حلقوں کے بجائے ملک گیر سطح پر ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے۔
مسلم لیگ نواز نے شاید ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ان رہنماؤں کے حلقوں میں اپنے رہ جانے والے امیدواروں یا ان کے خاندان کے افراد  کو صوبائی نشستوں  پر ایڈجسٹ کیا ہے۔ قومی الیکشن کے فوری بعد سینٹ کے انتخابات ہوں گے کچھ لوگوں کو وہاں بھی کھپایا جائے گا۔
ماجد نظامی کا مزید کہنا تھا کہ ’پارٹی ٹکٹ، گروپنگ اور الیکشن ڈے مینیجمنٹ اب انتخابی کامیابی کے لیے ضروری ہو گئے ہیں۔ ن لیگ نے جن لوگوں کو ٹکٹ دیا ہے ان میں بظاہر یہ خصوصیات نظر آ رہی ہیں۔‘
ان کے خیال میں پنجاب میں مقابلہ دو لوگوں سے زیادہ دو جماعتوں میں ہو گا جس کی وجہ سے ان حلقوں میں ماضی جیسے اپ سیٹ کی امید کم ہے۔
جنوبی پنجاب کی سیاسی حرکیات سے واقفیت رکھنے والے صحافی اور کالم نگار طاہر مہدی کا خیال ہے کہ ن لیگ نے اپنے مخالفین کو ٹکٹ دیتے وقت مقامی سطح پر ردعمل کو کم کرنے کے لیے جوڑ توڑ کیا ہو گا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جولائی 2022 کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی ائی کی جیت سے زیادہ مسلم لیگ ن کا اندرونی انتشار شکست کی وجہ بنا تھا۔
اس بار پی ٹی ائی کا انتخابی نشان نہ ہونے کی کنفیوژن اور ن لیگ کی بہتر مینیجمنٹ شاید ماضی کی نسبت بہتر نتائج کا باعث بنے مگر فیصلوں میں کامیابی اور ناکامی دونوں کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کے اٹھائے گئے نکات، ماضی کے سیاسی رجحانات اور بدلتے حالات سے جنم لیتے امکانات بظاہر اٹھ فروری کو  غیرمتوقع نتائج کے خدشات کے امکان کو رد کرتے ہیں۔
مگر پاکستانی سیاست کے خمیر میں اپ سیٹ کے عنصر کو مکمل طور پر نظر انداز کر دینا بھی شاید ممکن نہ ہو۔

شیئر: