انتخابات: کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی پوزیشن کیا ہے؟
انتخابات: کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی پوزیشن کیا ہے؟
جمعہ 2 فروری 2024 12:15
زین علی -اردو نیوز، کراچی
خالد مقبول صدیقی کا دعوٰی ہے کہ متحدہ شہری علاقوں میں ووٹ بینک رکھتی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا، متحدہ)
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اور مِنی پاکستان کہلانے والے اس شہر کی سیاست بھی ملک میں اپنی منفرد شناخت رکھتی ہے۔ یہاں کی سیاست طاقت اور زور پر چلتی ہے۔ یہ شہر اپنے دامن میں کئی تلخ و شیریں یادیں سمیٹے ہوئے ہے۔
اس شہر میں ملک کی بیشتر چھوٹی بڑی جماعتیں اپنی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ایسے میں کئی دہائیوں سے سندھ کے شہری علاقوں کے ووٹوں سے کئی بار حکومت میں آنے والی ایک جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی ہے۔
اچھا برا وقت گزارنے والی اور آپریشنز کا سامنا کرنے والی ایم کیو ایم اب کئی حصوں میں تقسیم ہے۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سندھ کے شہری علاقوں کی مقبول ترین جماعت اب بھی وہی ہے۔
کراچی شہر پر نظر ڈالی جائے تو دنیا کے کئی ممالک سے بڑی آبادی کے حامل اس شہر کے معاملات بھی بڑے دلچسپ نظر آتے ہیں۔ یہاں سیاسی داؤ پیچ بھی ملک کے دوسرے شہروں سے مختلف ہے، یہاں کے باسیوں کے مسائل اور مطالبات بھی ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔
انتظامی تقسیم کی بات کی جائے تو اب شہر میں سات اضلاع موجود ہیں۔ اس تقسیم کے ساتھ ہی شہر میں سیاسی اثر و رسوخ بھی منقسم نظر آتا ہے۔ ماضی میں شہر سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ایم کیوایم کو 2024 کے عام انتخابات میں اس کی وجہ سے کئی علاقوں میں سیٹ ایڈجسمنٹ بھی کرنا پڑ رہی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ ’سندھ میں 10 سال سے زائد حکمرانی کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے شہر میں اپنی جگہ بنانے کے لیے علاقوں کی تقسیم اور حلقہ بندیاں ایسے کی ہیں، جن سے اسے فائدہ پہنچے۔‘
ان کے مطابق ’ایم کیو ایم پاکستان کے مضبوط ووٹ بینک والے علاقوں کو ایسا توڑا گیا ہے کہ نتائج پر اثر انداز ہوا جا سکے۔
شہر میں ایم کیوایم پاکستان کی کیا پوزیشن ہے؟
ایم کیوایم پاکستان کا دعوٰی ہے کہ کراچی شہر کے ساتوں اضلاع میں متحدہ کے نہ صرف سپورٹرز موجود ہیں بلکہ ان علاقوں سے ایم کیو ایم ہی عوام کی نمائندہ جماعت ہے البتہ اگر ماضی کے الیکشن اور موجودہ صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو سیاسی ماہرین کی نظر میں متحدہ قومی موومنٹ کی پوزیشن پہلے کے مقابلے میں کچھ مختلف نظر آتی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے تقسیم ہونے کی وجہ سے شہر میں متحدہ قومی موومنٹ کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔
ان کے مطابق ’ایم کیو ایم میں پی ایس پی کے شامل ہونے کی وجہ سے بھی متحدہ کے اپنے کارکن اور کئی عہدیدار ناراض ہو کر پارٹی چھوڑ گئے ہیں۔ اسی طرح بانی متحدہ سے علیحدگی اختیار کیے جانے کے بعد کراچی میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کا فائدہ دیگر جماعتوں نے اٹھایا ہے۔ جن میں پیپلز پارٹی سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی اب شہر میں اچھی پوزیشن میں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ پورا کراچی کسی جماعت کا ہے یہ درست نہیں ہوگا، اب کراچی شہر میں ایم کیو ایم کے علاوہ کئی جماعتیں موجود ہیں جن کا اچھا ووٹ بینک شہر میں موجود ہے۔‘
ایم کیو ایم کا کن علاقوں میں ہولڈ ہے؟
سینیئر صحافی عبد الجبار ناصر کے مطابق موجودہ صورت حال کی بات کی جائے تو شہر کے چار اضلاع ایسے نظر آتے ہیں جہاں متحدہ قومی موومنٹ اچھی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ان میں کورنگی، وسطی، شرقی اور جنوبی اضلاع شامل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کراچی کے اضلاع کیماڑی، غربی اور ملیر میں ملا جلا رجحان دیکھنے میں آ سکتا ہے کیونکہ ان علاقوں میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف اور تحریک لبیک کے ووٹرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔‘
علاقوں کی سطح پر کیا پوزیشن ہے؟
ضلع جنوبی کے علاقے لیاری، کھارادر، میٹھا در، لی مارکیٹ اور اطراف کے علاقوں میں پیپلز پارٹی مضبوط نظر آتی ہے۔ اس علاقے سے کچھ دوری پر پان منڈی سے متحدہ قومی موومنٹ کی پوزیشن مضبوط ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
کھاس منڈی، عثمان آباد، رنچھوڑ لائن، نانک واڑہ، برنس روڈ، صدر، ریلوے کالونی، پاکستان چوک اور گنا منڈی میں ایم کیو ایم اپنے مضبوط ووٹ بینک کے ساتھ موجود ہے۔ اسی طرح ضلع وسطی میں فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی، بفرزون، لیاقت آباد، حسین آباد، عزیز آباد، سمیت دیگر علاقوں میں بھی ایم کیو ایم کی پوزیشن اچھی ہے۔
ضلع شرقی کے علاقے گلشن اقبال، گلستان جوہر، گارڈن، گرومندر، جمشید روڈ، جہانگیر روڈ، مارٹن کوارٹر، بہادر آباد، پی آئی بی، چاندنی چوک، سکیم 33 سمیت دیگر علاقوں میں بھی ایم کیوایم اچھی نشستیں جیت سکتی ہے۔ ضلع غربی سے پاک کالونی، اورنگی ٹاؤن، قصبہ، علی گڑھ، گلشن بہار سمیت دیگر علاقوں میں بھی ایم کیو ایم کا مضبوط ووٹ بینک موجود ہے۔
ضلع کیماڑی سے بلدیہ ٹاؤن اور مچھر کالونی سمیت دیگر علاقوں میں بھی ایم کیو ایم کے ووٹرز موجود ہیں۔ ضلع کورنگی میں ایم کیو ایم کا ایک مضبوط علاقہ ہے، کورنگی، شاہ فیصل، لانڈھی سمیت دیگر علاقوں میں ایم کیو ایم موجود ہے۔ ضلع ملیر کے بھی بیشتر علاقوں میں ایم کیو ایم کی پوزیشن بہتر ہے جن میں ملیر سعود آباد، ماڈل کالونی، کالا بورڈ سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
2018 کےعام انتخابات میں ایم کیو ایم کی کیا پوزیشن تھی؟
سال 2018 سے 2023 تک نظر ڈالیں تو ایم کیو ایم پاکستان عمران خان اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت دونوں کا حصہ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق ایم کیو ایم کے پاس قومی اسمبلی کی سات اور صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں تھیں۔
سال 2022 میں بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان نے بائیکاٹ کیا، اس طرح شہر میں بلدیاتی نمائندوں کی دوڑ سے ایم کیو ایم باہر ہو گئی اور بلدیاتی سیٹ اپ میں اپنی نمائندگی کھو بیٹھی۔
ایم کیو ایم پاکستان کی مقبولیت کن علاقوں میں ہے؟
بانی ایم کیوایم الطاف حسین کے قریبی ساتھی مصطفیٰ عزیز آبادی کا دعوٰی ہے کہ شہر میں ان کی حمایت کرنے والے اب بھی پرانی پوزیشن میں موجود ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آج اگر الطاف حسین سے پابندی ہٹا دی جائے تو کل شہر کا سیاسی منظر نامہ مختلف نظر آئے گا۔‘
سید مصطفیٰ کمال کے مطابق ’شہر میں اب ملک مخالف بات کرنے والی کی کوئی حمایت موجود نہیں ہے۔ سندھ میں بسنے والی تمام قومیتیں پاکستان کے ساتھ ہیں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اب شہر میں روز لاشیں نہیں گرتیں، یہاں ماؤں کی گودیں نہیں اجڑتیں، یہاں امن ہے اور تمام قومیتیں پیار اور محبت سے رہ رہی ہیں۔‘