عام انتخابات: سندھ میں کون سے حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے؟
عام انتخابات: سندھ میں کون سے حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے؟
جمعرات 1 فروری 2024 14:05
زین علی -اردو نیوز، کراچی
بدین سے سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا الیکشن میں حصہ لے رہی ہے (فائل فوٹو: پی پی پی، فیس بک)
ایک دہائی سے زائد عرصے سے صوبہ سندھ پر حکمرانی کرنے والی جماعت 2024 کے عام انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ تو کر رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی مخالف قوتیں بھی اس مرتبہ پہلے سے زیادہ منظم ہو کر کامیاب ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
سندھ سے الیکشن لڑنے والے ملکی سطح کے سیاسی رہنماؤں کے حلقوں پر نظر ڈالی جائے تو ملا جلا رجحان نظر آتا ہے۔
صوبہ سندھ ملک میں حکومت بنانے اور گرانے میں جی ٹی روڈ کی سی حیثیت تو نہیں رکھتا لیکن پھر بھی یہاں سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی حکومت بنانے اور گرانے میں اپنا اہم کردار رکھتے ہیں۔
پنجاب سے سندھ کو جوڑنے والے علاقے گھوٹکی کی بات کی جائے تو اس بار اس علاقے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔
مفاہمت پر یقین رکھنے والے سابق صدر آصف علی زرداری نے اس علاقے میں بسنے والی مہر برادری کے سرداروں کو پی پی کے جھنڈے تلے الیکشن لڑنے پر آمادہ کر لیا ہے۔
اس مرتبہ ماضی کے مخالف امیدوار علی گوہر مہر سمیت دیگر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
سندھ کے علاقے لاڑکانہ کی بات کی جائے تو اس علاقے میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری حلقہ این اے 194 سے میدان میں ہے۔
اس سیٹ پر کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ اس حلقے میں مذہبی جماعتوں اور پیپلزپارٹی کے درمیان معرکہ ہو گا۔
سنہ 2018 کے انتخابات کے نتائج کے مطابق یہاں سے بلاول بھٹو اور جمیعت علماء اسلام کے رہنما راشد سومرو کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا تھا۔
راشد سومرو 50 ہزار زائد ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس مرتبہ بھی بلاول کو اس حلقے میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پی پی مخالف جماعتیں اتحاد کی صورت میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔
سندھ کے علاقے شہید بے نظیر آباد کی نشست این اے 207 سے سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ایک بار پھر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ سیٹ پیپلز پارٹی کی سیف سیٹ ہے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں آصف علی زرداری اس نشست پر ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار سردار شیر محمد رند بلوچ کو شکست دی تھی۔
سندھ کے حلقہ این اے 206 کی بات جائے تو یہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید خورشید شاہ کو ایک بار پھر سید طاہر حسین شاہ کا سامنا کرنا ہو گا۔
اس علاقے میں ملے جلے رجحان کے ووٹرز آباد ہیں۔ جن میں پی پی حمایت اور مخالفت دونوں ہی رائے پائے جاتی ہیں۔ یہاں سے 2018 میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی تھی۔
سکھر میں پیپلز پارٹی کی علاقائی قیادت میں چپقلش ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں پیپلز پارٹی کو اپنے ہی حمایتی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سنہ 2024 کے عام انتخابات میں اس حلقے میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن میں سخت مقابلہ ہوسکتا ہے۔
سندھ کے علاقے بدین سے ایک بار پھر سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔
فہمیدہ مرزا نے 2018 کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 230 جو اب این اے 223 ہے سے کامیابی تو حاصل کی تھی لیکن فہمیدہ مرزا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار حاجی رسول بخش چانڈیو کے درمیان آٹھ سو 60 ووٹوں کا فرق تھا۔ اس مرتبہ بھی اس حلقے پر دونوں امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں اور دلچسپ مقابلے متوقع ہے۔
سندھ کے علاقے تھرپارکر چھاچھرو کے حلقہ این اے 214 سے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار پیر امیر علی شاہ جیلانی ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ اس حلقے میں مور اور تیر کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سمیت جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کے درمیان بھی سخت مقابلے متوقع ہیں۔
حلقہ این اے 241 سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان میدان میں ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے فاروق ستار کو اس حلقے کا ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس کے علاقے سے مرزا اختیار بیگ پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
حلقہ این اے 242 میں ایم کیو ایم کے رہنما سید مصطفیٰ کمال اور پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل آمنے سامنے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت جملوں کا تبادلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے یہاں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔
لیاری سے اس مرتبہ بلاول بھٹو الیکشن میں حصہ نہیں رہے ہیں۔ منی لاڑکانہ کہلانے والے اس علاقے سے 2018 میں پی ٹی آئی کے امیدوار شکور شاد نے بلاول بھٹو کو شکست دی تھی۔
اس بار اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار نبیل گبول الیکشن لڑ رہے ہیں اور انہیں لیاری اتحاد گروپ سے مقابلہ کرنا ہے۔ جبکہ اس علاقے میں تحریک لبیک پاکستان اور جماعت اسلامی بھی پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں۔
صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر لاڑکانہ، عمر کوٹ، بدین اور تھرپارک کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کو جی ڈی اے اور آزاد امیدواروں سے مقابلہ کرنا ہے۔ لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست دو بار ہارنے کے بعد پیپلز پارٹی کے لاڑکانہ سے سیٹ جیتنا ایک چیلنج ہے جبکہ حیدرآباد اور کراچی میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے درمیان مقابلہ ہے۔