Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال: روسی شکاری کا ایک لاکھ 85 ہزار ڈالر میں کشمیر مارخور کا شکار

ڈویژنل فارسٹ أفیسر چترال فاروق نبی کے مطابق ’شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کا سائز 49 انچ ہے‘ (فوٹو: محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا)
روسی شکاری ڈینک موروزوے نے چترال میں کشمیر مارخور کا شکار کر لیا ہے۔
ڈینس موروزوے نے مارخور کا شکار تھوشی شاشہ کمیونٹی مینجڈ گیمز ریزرو کی  کاست گاؤں میں کیا ہے۔
ڈویژنل فارسٹ أفیسر چترال فاروق نبی نے اردو نیوز کو بتایا کہ شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کا سائز 49 انچ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کاست کے علاقے میں پہلی مرتبہ مارخور کا شکار کیا گیا ہے۔
مذکورہ شکار کے لیے پرمٹ کی نیلامی گذشتہ سال اکتوبر میں کی گئی تھی۔ روسی شکاری نے یہ پرمٹ ایک لاکھ 85 ہزار ڈالر میں خریدا تھا۔
اس سے قبل 16 دسمبر 2023 کو رواں سیزن کا پہلا شکار ایک امریکی شکاری نے کیا تھا۔
اس شکار کے لیے پرمٹ کی بولی پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی بولی تھی۔
شکار کیے گئے مارخور کی عمر نو سال چھ ماہ تھی اور اسے  تھوشی شاشا کمیونٹی گیم ریزرو میں ہی امریکی شکاری ڈیرن جیمز مل مین نے شکار کیا تھا۔
شکار کیے گئے بڑے نر مارخور کے سینگوں کا سائز 45 انچ تھا۔
امریکی شکاری نے اس شکار کے لیے پرمٹ رواں برس اکتوبر میں ہونے والی بولی میں حاصل کیا تھا۔
جیمز مل مین نے اس اجازت نامے کے لیے سب سے بڑی بولی دی تھی۔ اس کی مالیت دو لاکھ 32 ہزار امریکی ڈالر (ساڑھے چھ کروڑ روپے) تھی۔
ابتدائی طور پر بولی کی رقم دو لاکھ 12 ہزار ڈالر تھی جو ٹیکس شامل کر کے دو لاکھ 32 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
روسی شکاری نے مارخور کے پرمٹ کے لیے بولی میں حصہ زون سفاری راولپنڈی کے ذریعے لیا تھا۔
فاروق نبی نے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تھوشی شاشا کنزرونسی کے البرہان وی سی سی سے ہٹ کر کسیت وی سی سی میں شکار کرایا گیا۔

گذشتہ برس چترال میں امریکی شکاری ہورنڈی سٹیفن ڈوگلس نے بھی کشمیر مارخور کا شکار کیا تھا (فائل فوٹو: محکمہ جنگلی حیات خیبر پختونخوا)

ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کہ ثبوت ہے کہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اور کمیونٹی کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور معدومیت کے شکار مارخور کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈی ایف او  کا کہنا تھا کہ کنزرویشن کمیٹیز، کمیونٹی اور ڈیپارٹمنٹ کی کوششوں سے چترال میں کشمیر مارخور کا سٹیٹس معدومیت کے خطرے سے نکل کر مستحکم ہوگیا ہے۔
ان کے مطابق رواں سیزن میں چترال میں تین ٹرافی ہنٹنگ کے پرمٹس کی نیلامی ہوئی تھی ان میں سے دو پرمنٹ ہولڈرز نے شکار کر لیے اور ایک پرمٹ باقی ہے۔ 
'تیسرا پرمٹ ایک لاکھ 35 ہزار ڈالر میں نیلام ہوگیا تھا جس پر شکار ہونا باقی ہے۔'
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا آغاز
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا آغاز 1999 سے ہوا۔ 1997 میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اِن انڈینجرڈ سپیشیز سے متعلق زمبابوے میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کو مارخور کے غیرقانونی شکار کو روکنے کے لیے ہنٹنگ ٹرافی دینے کی اجازت دی گئی۔
 ابتدا میں پاکستان کو سال میں چھ ٹرافیوں کی اجازت دی گئی جسے بعد میں بڑھا کر 12 کر دیا گیا۔

 ابتدا میں پاکستان کو سال میں چھ ٹرافیوں کی اجازت دی گئی تھی جسے بعد میں بڑھا کر 12 کر دیا گیا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

فاروق نبی نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ اور کمیونٹی مینجڈ کنزرویشن کی بدولت چترال میں کشمیر مارخور کی تعداد جو 1999 میں چند سو تھی اب ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان میں مارخور خيبر پختونخوا کے علاقے چترال، کوہستان، گلگت بلتستان کے ضلع استور، پاکستان کے زيرِانتظام کشمير اور صوبہ بلوچستان ميں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں پائے جاتے ہيں۔
محکمہ جنگلی حیات چترال کے افسر کے مطابق شکار کے بعد محکمہ جنگلی حیات کے اہلکار شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کی پیمائش کرتے ہیں جسے شکاری کے حوالے کیا جاتا ہے۔
شکاری سینگ کو بطور ٹرافی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ ان کے مطابق ’عموماً شکاریوں کی دلچسپی مارخور کے گوشت میں نہیں ہوتی۔‘

شیئر: