جگنو محسن پارٹی ورکر کو ٹکٹ دینے سے پی ٹی آئی کے امیدوار کی سپورٹ تک
جگنو محسن پارٹی ورکر کو ٹکٹ دینے سے پی ٹی آئی کے امیدوار کی سپورٹ تک
اتوار 4 فروری 2024 8:35
ادیب یوسفزئی -اردو نیوز
جگنو محسن نے گزشتہ الیکشن میں جیتی اپنی نشست پر مقامی سیاسی ورکر کو میدان میں اُتارا ہے۔ فوٹو: جگنو محسن فیس بک
’مجھے میرے والد نے کہا کہ المحسن حویلی کو اپنے سیاسی سرگرمیوں کا ہیڈکوارٹر بنا لو کیونکہ اِس دھرتی کا قرض اتارنے کا وقت آ پہنچا ہے۔‘
آج سے تقریبا 15 سال قبل 2008 میں مچلز فروٹ فارم کے چیئرمین سید محسن کرمانی نے اپنی بیٹی اور معروف خاتون صحافی جگنو محسن کو یہ ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقے واپس آ کر اپنے لوگوں کو وقت دیں۔
جگنو محسن کا خاندان پاکستان کے امیر اور زمیندار گھرانوں میں شمار ہوتا ہے۔
انہوں نے اپنے والد کے کہنے پر اپنے آبائی حلقے اوکاڑہ، شیر گڑھ کا رخ کیا اور آج تک اسی حلقے میں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ اوکاڑہ میں ان کے جد امجد مدفون ہیں اور ان کا خاندان یہاں گزشتہ پانچ صدیوں سے مقیم ہے۔ ان کے والد روشن خیال اور والدہ ترقی پسند تھیں۔ ان کے والد سید محسن کرمانی نے انہیں 16 سال کی عمر میں برطانیہ کے ایک بورڈنگ سکول بھیج دیا جس کے بعد انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے بار ایٹ لاء کیا۔
اس وقت پاکستان میں انتخابات قریب ہیں۔ تمام تر سیاسی جماعتیں اپنے متعلقہ حلقوں میں مہم چلا رہی ہیں۔ ملک کی بڑی جماعتوں میں شمار ہونے والی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ملک گیر انتخابی جلسوں میں مصروف ہیں، تاہم پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدار بھی مقامی سطح پر بھر پور طریقے سے انتخابی مہم کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کو درپیش سیاسی چیلنجز میں ایک اہم چیلنج آزاد امیدواروں کو جتوانا اور ان کو جیت کے بعد پارٹی کے ساتھ وفادار ٹھہرانا ہے۔
اس دوران ماضی میں مسلم لیگ ن کا حصہ رہنے والی جگنو محسن اوکاڑہ این اے 137 سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سید رضا علی گیلانی کو سپورٹ کر رہی ہیں۔
جگنو محسن خود بطور آزاد امیدوار گزشتہ انتخابات میں سید رضا علی گیلانی کو شکست دے چکی ہیں، جبکہ اس بار ان کے مطابق انہوں نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ پر ایک ورکر کو انتخابات میں کھڑا کیا ہے۔
جگنو محسن نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس بار عام انتخابات میں کارکن کے کاغذات جمع کرائے تھے۔ ان کے بقول ’ رائے مشتاق کھرل ایک ذہین اور محنتی کارکن ہے اور ہمہ وقت اپنے لوگوں کے لیے حاضر رہتا ہے، میں خود جمہوریت پسند ہوں اس لیے میں نے رائے مشتاق کھرل کے لیے پی پی 186 سے ان کے کاغذات جمع کرائے۔‘
جگنو محسن گزشتہ کئی مہینوں سے رائے مشتاق کھرل کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔
عام سیاسی ورکر الیکشن لڑوانا
ایک عام سیاسی ورکر اور کارکن کو جیتی ہوئی نشست پر کھڑے کرنے کی وجہ دریافت کرنے پر جگنو محسن نے بتایا کہ یہ فیصلہ انہوں نے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے اور عوام کو طاقت دینے کے تناظر میں کیا۔
انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایاکہ ’جب انتخابات کا سماں بندھا تو میں نے فیصلہ کیا کہ لوگوں کو طاقت دینے کے لیے میں ایک مثال قائم کروں گی کیونکہ لوگوں کو صرف تعلیم اور صحت کی سہولیات دینا امپاورمنٹ نہیں ہوتی بلکہ حقیقت میں عوام کو بااختیار بنانے کے لیے ان کو طاقت منتقل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنے المحسن گروپ سے مشورہ کیا تو ہم سب کا رائے مشتاق احمد پر اتفاق ہوا۔‘
رائے مشتاق احمد کھرل اس سے قبل کونسل چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں اور علاقے میں سب سے متحرک سیاسی کارکن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جگنو محسن نے بتایا کہ ’میں نے خود اپنے ہاتھوں سے رائے مشتاق کھرل کی ٹریننگ کی ہے۔ المحسن گروپ بھی عام لوگوں پر مشتمل ہے جہاں ہم سب مل کر اپنے سارے فیصلے کرتے ہیں۔‘
اس حوالے سے اوکاڑہ پریس کلب کے صدر شہباز شاہین بتاتے ہیں کہ جگنو محسن کا یہ اقدام قابل تحسین ہے لیکن کہانی کا دوسرا رخ بھی ہے۔ ’دراصل اس حلقے سے عاشق کرمانی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے حقدار قرار پائے ہیں،ان کا شریف فیملی میں بڑا اثر و رسوخ ہے اور یہ تو پہلے سے ہی طے تھا کہ ٹکٹ انہیں ہی ملے گا۔ جگنو محسن کے شوہر نجم سیٹھی سے نواز شریف نے پی سی بی کی چیئرمین شپ لے لی تھی، اس لیے ان کی جگہ عاشق کرمانی کو ٹکٹ ملا، اگر جگنو محسن کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملا ہوتا، اور وہ ٹکٹ کسی ورکر کو ملتا تو پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ موروثی سیاست کے خلاف ہے۔‘
سیاسی سفر کا آغاز
جگنو محسن خود آزاد حیثیت سے انتخابات لڑ چکی ہیں لیکن 2022 میں وہ پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہوئیں۔ ان کے مطابق انہوں نے عوامی مفاد کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ بھی الحاق کیا ہے۔
وہ سیاست میں آنے کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ 2013 میں میاں محمد نواز شریف نے انہیں کہا کہ وہ سیاست میں آئے۔ ’مجھے نواز شریف نے کہا کہ آپ اپنے علاقے میں کام کرتی ہیں، اور آپ کے چچا ہمارے ممبر رہ چکے ہیں، آپ ٹکٹ لیں اور قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑیں، لیکن میں نے کہا کہ میں اور نجم سیٹھی صحافی ہیں اور غیر جانبدار رہ کر اپنے لوگوں کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق اس کے بعد ان کے والد کی نشاندہی پر وہ ٹکٹ ان کے رشتہ دار عاشق کرمانی کو دیا گیا۔ ’عاشق کرمانی ہماری امیدوں پر پورے نہیں اترے۔ اس لیے ہم نے بلدیاتی انتخابات میں عام لوگوں کو کھڑا کیا لیکن عاشق کرمانی نے سختی سے ان کی مخالفت کی۔‘
انہوں نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات میں اہل علاقہ نے اصرار کیا کہ وہ خود اس بار انتخابات لڑے۔ ’میں نے لوگوں سے کہا کہ میں الیکشن تو لڑوں گی لیکن کسی پارٹی ٹکٹ پر نہیں بلکہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آؤں گی۔ یوں میں نے انتخابات میں حصہ لیا اور 65 ہزار ووٹ لے کر جیت گئی۔ جس کے بعد میں نے اپنے لوگوں کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ الحاق کیا کیونکہ میں جیت کر بھی اپوزیشن میں نہیں رہنا چاہتی تھی، میں نے اپنے لوگوں کے لیے کام کرنا تھا۔‘
پتر پال سکیم
صوبائی اسمبلی پہنچنے کے بعد ان کو کئی بار مختلف نوعیت کے امتحان سے گزرنا پڑا۔ ایک وقت میں جب پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تو انہیں حمزہ شہباز کی حمایت کرنا پڑی اور وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئیں۔
ان کے بقول ’ہم نواز شریف کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے ہم نے ان کے کہنے پر حمزہ شہباز کا ساتھ دیا لیکن بدقسمتی سے وہ حکومت بھی نہ چل سکی۔‘
اس وقت وہ اپنے حلقے سے ایک کارکن کے لی مہم چلا رہی ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ 2018 میں رضا علی گیلانی کو ہرانے کے باوجود انہیں بھی سپورٹ کر رہی ہیں۔اس سیاسی تال میل کو جگنو محسن ’پتر پال سکیم‘ سے جوڑتی ہیں۔ این اے137 سے مسلم لیگ ن نے راؤ اجمل خان کو ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ رضا علی گیلانی پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ہیں۔
جگنو محسن راؤ اجمل خان سے متعلق بتاتی ہیں ’مسلم لیگ ن نے راؤ اجمل کو ٹکٹ دیا ہے لیکن ان کے خلاف لوگوں کے دلوں میں بڑی نفرتیں ہیں کیونکہ وہ لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اور ان کی کرپشن کی اتنی کہانیاں ہیں کہ شمار محال ہے۔ ان کی کئی بے نامی جائیدادیں بھی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ راؤ اجمل خان نے ٹکٹ لینے کے بعد بھی پارٹی سے اصرار کیا کہ ان کے دو بیٹوں کو بھی صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ دی جائے۔
’ایک طرف وہ خود الیکشن لڑ رہا ہے اور دوسری طرف وہ اپنے بیٹوں کو بھی میدان میں اتارنا چاہتا ہے۔ مسلم لیگ ن نے حلقہ 189 پر علی عباس کھوکھر کو ٹکٹ دیا لیکن راؤ اجمل نے وہاں سے اپنے بیٹے راؤ سعد اجمل کو بطور آزاد امیدوار کھڑا کر دیا۔ یہی موروثی سیاست ہے جسے وہ پتر پال سکیم کہتی ہیں بلکہ یہ اصطلاح یہاں کے لوگوں نے استعمال کی ہے۔‘
’'پتر پال سکیم کے حوالے سے اوکاڑہ پریس کلب کے صدر اور صحافی شہباز شاہین بتاتے ہیں کہ اس سے مراد موروثی سیاست ہے جو پاکستانی سیاست کا ایک حصہ ہے۔ ’تقریبا تمام سیاسی جماعتیں موروثی سیاست کا شکار ہیں۔ اوکاڑہ میں میاں معین وٹو نے اپنے بھتیجے کو صوبائی اسمبلی کے لیے کھڑا کیا ہے، اسی طرح ندیم ربیرہ ایم این اے تھے انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی غلام رضا ربیرا کو صوبائی نشست پر اتارا ہے۔ اسی طرح راؤ اجمل نے اپنے بیٹے راؤ سعد اجمل کے لیے مسلم لیگ کے ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا تھا جو نہیں ملا تو انہوں نے اسے آزاد کھڑا کر دیا۔ یہی پتر پال سکیم ہے اور یہ سکیم ضلع اوکاڑہ میں بہت زیادہ ہے۔‘
جگنو محسن اس ’پتر پال سکیم‘ کے خلاف جاتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سید رضا علی گیلانی کو سپورٹ کر رہی ہیں اور لوگوں سے ان کے لیے ووٹ بھی مانگ رہی ہیں۔
اس حوالے سے ان کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں جگنو محسن سید رضا علی گیلانی کے لیے ووٹ مانگ رہی ہیں۔ ایکس پر مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے ویڈیو پر رائے دی کہ ’یہ وکٹوں کے دونوں سائیڈ پر کھیلتے ہیں۔ شوہر صاحب پی سی بی کے ہر وقت چیئرمین بننے کے خواہشمند ہیں۔‘
اردو نیوز نے جگنو محسن سے اس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’خواجہ آصف کو منافقت کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ وہی خواجہ آصف ہیں جو فوج مخالف بیانات دیتے تھے اور پھر نوا شریف کے وژن کے برعکس ایکسٹینشن دیتے رہے۔ انہوں نے تو خود نواز شریف کی حکم عدولی کی ہے۔‘
اوکاڑہ میں مبینہ ’پتر پال سکیم‘ کے بعد سیاسی منظرنامہ یکسر بدل گیا ہے۔ کئی لوگ اسے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے سیاسی اتار چڑھاؤ کی طرح دیکھ رہے ہیں جبکہ کئی لوگ اسے مقامی سیاست بتاتے ہیں۔
شہباز شاہین کے بقول ’سید رضا علی گیلانی نے انہیں بتا دیا ہے کہ وہ صوبائی نشست پر ان کی سپورٹ نہیں کریں گے لیکن اس کے باوجود جگنو محسن ان کے لیے ووٹ مانگ رہی ہیں۔‘