Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی جماعتیں ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے ’نئے انداز‘ میں سرگرم

پی ٹی آئی نے انتخابات سے ایک دن پہلے ووٹرز کے گھروں تک پرچیاں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اپنی مہم میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں۔
بدلتے زمانے کے ساتھ جہاں روایتی جلسے، جلوس، ریلیاں، اشتہارات اور پینا فلیکسز پر پیسے خرچ کیے جاتے ہیں وہیں اب سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور دیگر طریقوں سے تشہیری مہم بھی چلائی جاتی ہے۔
اس ساری مشق کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ووٹرز کو اپنا ایجنڈا، منشور اور کارکردگی دکھا کر اسے ووٹ ڈالنے پر قائل کیا جائے۔ ایک وقت تھا کہ پولنگ کے دن امیدوار ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کیا کرتے تھے۔ ووٹرز کو گھروں سے پولنگ سٹیشن پہنچایا جاتا تھا۔ ہر جماعت کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ ووٹرز کو گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشن پر پہنچایا جائے۔
لیکن اب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کی وجہ انتخابات میں پیسے کے کم سے کم استعمال کو فروغ دینا ہے۔
الیکشن کمیشن ووٹرز کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کو قومی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خود پولنگ سٹیشن جائیں اور کسی بھی جماعت یا امیدوار سے کوئی فائدہ لیے بغیر ووٹ کاسٹ کریں۔

صحیح نشان پر مہر لگوانا، پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں اپنے ووٹرز کو باہر نکالنے کا سب سے بڑا چیلنج پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کو درپیش ہے۔
اس کی وجوہات میں عمران خان کا بذات خود انتخابی عمل سے باہر ہونا، پارٹی امیدواروں کے پاس بَلّے کا انتخابی نشان نہ ہونا اور ایک ایک حلقے میں کئی آزاد امیدواروں کی جانب سے خود کو تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کرنا ہے۔
تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹرز کو آگاہی دینے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلے میں تحریک انصاف کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پیجز پر امیدواروں کی فہرست ان کے انتخابی نشانات سمیت اپ لوڈ کی گئی ہے۔

تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹرز کو آگاہی دینے کی کوشش کی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان کے آفیشل فیس بک پیج پر حلقہ نمبر بھیجنے پر متعلقہ حلقے کے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار کا نام اور انتخابی نشان بھیجا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ٹک ٹاک اور یوٹیوب ویڈیوز کے ذریعے بھی تحریک انصاف نے خود اور ان کے رضاکاروں نے لوگوں میں آگاہی پھیلانے کے لیے بہت سی ویڈیوز بنائی ہیں۔
اس سب کے باوجود تحریک انصاف کا الیکشن سیل ہر حلقے میں ووٹرز کو فون کرکے متعلقہ حلقے کے امیدوار کے نام اور انتخابی نشان سے آگاہ کر رہا ہے۔
تحریک انصاف نے پیش بندی کرتے ہوئے ایک رابطہ ایپ بنائی ہے تاکہ انٹرنیٹ بند ہو جانے کی صورت میں اس کے ذریعے آف لائن بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کی فہرست اور ان کے انتخابی نشان دیکھے جا سکیں۔
شہری حلقوں میں یہ اقدامات تو یقیناً پی ٹی آئی کو فائدہ دے سکتے ہیں لیکن دیہی علاقوں میں ابھی بھی تحریک انصاف کے لیے ووٹرز کو اپنے امیدوار کا انتخابی نشان بتانا اور سمجھانا چیلنج سے کم نہیں۔
اس مقصد کے لیے پی ٹی آئی نے انتخابات سے ایک دن پہلے ہی ووٹرز کو ان کے گھروں تک پرچیاں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو باہر نکالا جا سکے اور انھیں پی ٹی آئی کے امیدوار کے نشان پر مہر لگانے پر قائل کیا جا سکے۔

’ہیلو میں نواز شریف بول رہا ہوں‘

گزشتہ چند روز سے کم و بیش ہر دوسرا فرد بتا رہا ہے کہ اسے ایک مخصوص نمبر سے نواز شریف کی کال موصول ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنی سابق حکومت کے کارنامے گنوانے کے بعد ایک مرتبہ پھر شیر کے نشان پر مہر لگانے کی درخواست کی ہے۔
یہ سلسلہ قومی سطح پر شروع ہوا تو مسلم لیگی امیدواروں نے اپنے طور پر اپنے حلقے کے ووٹرز کو یہ کالز کروانے کا سلسلہ شروع کیا۔

مریم نواز بھی اپنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے ووٹرز کو ایسی ہی کالز کر رہی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس مقصد کے لیے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو مخصوص علاقے کے تمام ووٹرز کو ریکارڈڈ کالز کرتے ہیں۔ اس کے بدلے لاکھوں روپے معاوضہ لیا جاتا ہے۔
مریم نواز بھی اپنے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے ووٹرز کو ایسی ہی کالز کر رہی ہیں۔
یہ ٹرینڈ سنہ 2011 کے بعد پی ٹی آئی نے شروع کیا تھا جسے اب کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن سوشل میڈیا پر چھوٹی چھوٹی ڈرامہ ویڈیوز کے ذریعے ووٹرز کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کا دور تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے دور سے اچھا تھا۔
ان ویڈیوز میں ن لیگ دور میں لگنے والے منصوبوں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔

پیپلز پارٹی کا ووٹرز کو نکالنے کے لیے مقامی تنظیموں پر انحصار

پاکستان پیپلز پارٹی نے آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے سب سے بڑی اور جامع انتخابی مہم چلائی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری اور آصفہ بھٹو نے ملک کے طول و عرض میں جلسوں سے خطاب کیا اور ریلیاں نکالیں۔
اس انتخابی مہم میں بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کے بجائے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو نشانے پر رکھا۔
بلاول بھٹو زرداری تحریک انصاف کے پاس بلے کا نشان نہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی کے ووٹرز کو انتقامی سیاست کے خاتمے کا کہہ کر ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے جامع انتخابی مہم چلائی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب پولنگ ڈے پر اپنے ووٹرز کو باہر نکالنے کے لیے پیپلز پارٹی اپنی مقامی تنظیموں کو متحرک کیے ہوئے ہے۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے الیکشن سیل کے سربراہ سینیٹر تاج حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ سندھ میں وارڈز کی سطح پر ہماری تنظیمیں موجود ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پولنگ کے دن لوگوں کو گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشن پہنچائیں۔
اس کے علاوہ ہر امیدوار کی ہر گاؤں اور شہر میں اپنی ٹیمیں ہیں جو ووٹرز کو باہر نکالیں گی۔
ان کے مطابق پارٹی کی سطح پر سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور الیکٹرانک کالز کے ذریعے بھی ووٹرز سے رابطے کیے جا رہے ہیں اور انہیں احساس دلایا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینا کیوں ضروری ہے۔

جماعت اسلامی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں پیش پیش

جماعت اسلامی پاکستان اپنے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کے روایتی رنگ ڈھنگ کی وجہ سے معروف ہے۔
جماعت اسلامی کے کارکن بھی اس رنگ ڈھنگ میں خود کو پرجوش محسوس کرتے ہیں۔ بظاہر دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ جماعت مقبول ہے لیکن ہمیشہ جب ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے تو ظاہری ماحول کے برعکس جماعت کے امیدواروں کے ووٹ کم نکلتے ہیں۔
شاید یہ پہلے انتخابات ہیں جہاں جماعت اسلامی میں اپنی اس غلطی کا احساس موجود ہے اور وہ اپنے حامیوں، خیرخواہوں اور سپورٹرز کو اپنے ووٹرز میں تبدیل کرنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔
کچھ دن پہلے جماعت اسلامی نے کراچی میں ووٹرز پرچی بنانے کے لیے کریڈٹ کارڈ مشین میں ایک حلقے کا ڈیٹا فیڈ کرکے اس سے ڈیجیٹل ووٹر پرچیاں پرنٹ کرکے ووٹرز کو فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
پھر ایک قدم آگے بڑھ کر جماعت اسلامی نے انتخابی فہرستوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ووٹرز کو ان کے واٹس ایپ پر ووٹر پرچی بھیجنا شروع کر دی ہے۔
جماعت اسلامی کے ذمہ داران کے مطابق امیدواروں نے کافی عرصے سے اس منصوبے پر کام شروع کیا ہوا تھا کہ ووٹرز فہرستوں میں موجود افراد کے موبائل نمبرز جمع کیے جائیں۔ پھر ووٹر لسٹ سے شناختی کارڈ نمبر لے کر اسے 8300 پر بھیجا جاتا ہے۔ واپس آنے والی معلومات میں ووٹرز کا پولنگ سٹیشن پتہ چل جاتا ہے۔

جماعت اسلامی نے ووٹرز کو ان کے واٹس ایپ پر ووٹر پرچی بھیجنا شروع کر دی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان معلومات کو ایک میسیج میں تبدیل کرکے ووٹر کو بھیجا جاتا ہے جس میں ووٹر کا نام، ولدیت، شناختی کارڈ نمبر، پولنگ سٹیشن کا پتہ لکھنے کے بعد درخواست کی جاتی ہے کہ آپ خود، اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کو ترازو پر مہر لگانے کے لیے لازمی کہیں۔
اس کے علاوہ جماعت اسلامی اپنے سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے ملک میں آنے والی آفات کے دوران جماعت اسلامی کے ورکرز کی خدمات کی ویڈیوز اور تصاویر لگا کر بھی لوگوں کو یاد دہانی کروا رہی ہے کہ آپ ان لوگوں کو نہ بھولیں جو مشکل وقت میں آپ کے کام آئے۔
ان تمام جماعتوں کے علاوہ بھی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اور ان کے امیدوار پولنگ ڈے پر ووٹرز کو باہر نکالنے اور ووٹ ڈالنے کے لیے سہولت فراہم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ روایتی پولنگ کیمپس لگانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

شیئر: