Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ حلقہ جس میں سعد رفیق کو پہلی مرتبہ عمران خان کے ہاتھوں شکست ہوئی

سخت ترین مقابلے کے بعد این اے 122 میں عمران خان ایک ہزار سے زائد ووٹوں سے جیت گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے ویسے تو تمام حلقوں میں کانٹے دار مقابلوں کی توقع کی جا رہی ہے تاہم دو حلقے ایسے ہیں جن میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے سب سے زیادہ سرگرم مہم چلائی ہے۔
ان میں سے ایک حلقہ این اے 122 ہے جہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار سعد رفیق اور ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ لطیف کھوسہ ہیں۔ جبکہ دوسرا حلقہ این اے 128 ہے جہاں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سلمان اکرم راجہ اور استحکام پارٹی کے عون چوہدری آمنے سامنے ہیں۔
ویسے تو شہر میں تحریک انصاف کی اشتہاری مہم کچھ زیادہ نہیں رہی البتہ ان دونوں حلقوں میں لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم راجہ نے خوب اپنی تشہیر کی۔
این اے 122 کا حلقہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں خواجہ سعد رفیق نے ہمیشہ کامیابی سمیٹی ہے تام گزشتہ انتخابات یعنی 2018 میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان سے تھا۔ اس وقت اس حلقے کا نمبر این اے 131 تھا۔
سخت ترین مقابلے کے بعد عمران خان اس حلقے سے ایک ہزار سے زائد ووٹوں سے جیت گئے تھے۔ انہوں نے 84 ہزار 313 جبکہ سعد رفیق نے 83 ہزار 633 ووٹ حاصل کیے تھے۔
تاہم تحریک انصاف کی برتری کچھ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ عمران خان چار نشستوں سے کامیاب ہوئے تھے انہوں نے یہ نشست چھوڑ دی۔
ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے سعد رفیق کے مقابلے میں ہمایوں اختر خان کو ٹکٹ دی تاہم وہ 10 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ اس سے پہلے اگر 2013 کے عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت تحریک انصاف کے حامد خان اس حلقے سے سعد رفیق کے مدمقابل تھے۔ اُس وقت اس حلقے کا نمبر این اے 125 تھا۔ حامد خان 45 ہزار کے قریب ووٹوں سے ہار گئے تھے۔
اسی طرح 2008 کے عام انتخابات میں بھی سعد رفیق بھاری مارجن سے اسی حلقے سے جیتے تھے۔ اس وقت ان کا مقابلہ پیپلزپارٹی کے نوید چوہدری سے تھا۔ تحریک انصاف نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس وقت بھی اس حلقے کا نمبر این اے 125 ہی تھا۔
اب عام انتخابات 2024 میں اس حلقے کا نمبر این اے 122 ہے اس میں پھر سعد رفیق ہی ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ یہ حلقہ لاہور کے کنٹونمنٹ اور ڈی ایچ اے کے علاقوں کے علاوہ دھرم پورہ والٹن، سپر ٹاؤن، چونگی امرسندھو، بھٹہ چوک، عسکری ٹین، برج کالونی اور بیدیاں روڈ تک پھیلا ہوا ہے۔

چھ فروری تک تمام پارٹیوں نے انتخابی مہم چلائی۔ (فوٹو: اے ایف پی) 

اس حلقے میں پانچ لاکھ 70 ہزار سے زائد ووٹرز ہیں جبکہ پانچ صوبائی حلقے بھی این اے 122 میں آتے ہیں۔ لاہور کے جن حلقوں کی حلقہ بندیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں ان میں یہ حلقہ بھی شامل ہے۔
پہلے اس حلقے میں ڈی ایچ اے پورا شامل تھا تاہم اب ڈی ایچ اے کا کافی حصہ دوسرے حلقوں میں شامل کر دیا گیا ہے جس پر تحریک انصاف نے اعتراض کیا تھا۔
لطیف کھوسہ پہلی مرتبہ اس حلقے سے امیدوار ہیں۔ انہوں نے زیادہ تر انحصار تحریک انصاف کی ڈیجیٹیل کمپین پر کیا۔ انہوں نے کارنر میٹنگنز بھی کیں۔
ڈی ایچ اے کے علاقوں میں ان کو پزیرائی حاصل ہے تاہم اگر ڈی ایچ اے سے باہر کینٹ کی گنجان آبادیوں کی بات کی جائے تو اس میں ن لیگ گلی محلوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس لیے ان علاقوں میں سعد رفیق کا پلڑا بھاری معلوم ہوتا ہے۔
تاہم حتمی فیصلہ تو اب آٹھ فروری کے دن ہی ہو گا کہ آیا سعد رفیق اس حلقے پر اپنا سکہ جمائے رکھتے ہیں یا نہیں۔

شیئر: