Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اقتدار کی جنگ، بلوچستان میں کس کا پلڑا بھاری؟

بلاول بھٹو زرداری نے یکم فروری کو ڈیرہ مراد جمالی میں بھی ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انتخابات کا دلچسپ کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ چند ماہ پہلے تک بلوچستان میں ملک کی جن دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا خاطر خواہ وجود ہی نہیں تھا، اب صوبے میں اقتدار کی جنگ کا مقابلہ انہی دو جماعتوں کے درمیان ہو گا۔
دونوں جماعتیں الیکٹ ایبلز کا سہارا لے کر بلوچستان کے انتخابی میدان میں اتری ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر صوبے میں انتخابی مہم میں صرف پیپلز پارٹی کی قیادت فعال طور پر دلچسپی اور حصہ لیتے ہوئے دکھائی دے رہی تھی جبکہ ن لیگ کی قیادت بلوچستان کی انتخابی مہم سے بالکل باہر تھی اور نومبر 2023 کے بعد دوسرے درجے کے کسی مرکزی رہنما نے بھی صوبے کے کسی حصے کا دورہ نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری 30 نومبر کو کوئٹہ میں پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے کے بعد اب تک پانچ بار صوبے کا دورہ کر چکے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے یکم فروری کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے جناح فٹبال سٹیڈیم، 14 جنوری کو نصیرآباد کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں بڑے جلسوں سے خطاب کیا جبکہ آصف زرداری نے 28 جنوری کو حب میں انتخابی جلسے میں شرکت کی۔
آصف زرداری 9 جنوری کو سرفراز بگٹی کے آبائی ضلع ڈیرہ بگٹی میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کرنے سوئی پہنچے تھے تاہم 50 کلومیٹر فاصلے پر واقع ڈیرہ بگٹی تک موسم کی صورتحال اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے نہیں جا سکے۔
اس سے پہلے آصف زرداری نے 18 دسمبر کو تربت کا دورہ کیا اور پیپلز پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں سابق نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔
دوسری جانب ن لیگ کے قائدین سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز نے 14 اور 15 نومبر کو کوئٹہ کا دورہ روزہ دورہ کیا۔
ان کا یہ دورہ کوئٹہ کے معروف نجی ہوٹل کے کمرے اور ہال تک محدود تھا۔ صرف میاں شہباز شریف سیاسی رہنما لشکری رئیسانی سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے کے لیے ہوٹل سے باہر آئے۔
اس دورے میں درجن سے زائد الیکٹ ایبلز نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد لیگی قیادت نے بلوچستان کا اب تک دوبارہ رخ نہیں کیا۔ پارٹی کے کسی دوسرے درجے کے رہنما بھی صوبے میں انتخابی مہم میں شریک نہیں ہوئے۔ صوبے میں ن لیگ کے امیدواروں نے بھی کوئی بڑے جلسے نہیں کیے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے مریم نواز اور شہباز شریف کے ہمراہ کوئٹہ کا دورہ کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ن لیگ کی قیادت کی بلوچستان کی جانب عدم توجہی کا سوال جب بلوچستان میں پارٹی کے جنرل سیکریٹری سابق سپیکر صوبائی اسمبلی جمال شاہ کاکڑ سے پوچھا تو انہوں نے ن لیگ میں شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دلچسپ جواب دیا کہ ’میاں صاحبان اور مریم نواز نے کوئٹہ آ کر جو فصل لگائی وہ اب تیار ہو رہی ہے اس کا پھل آٹھ فروری کو ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلزپارٹی کو امیدیں نہیں اس لیے ان کی قیادت بار بار بلوچستان آ کر خود کو جمانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ہم جم چکے ہیں۔ ہمیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔‘
بلوچستان کے سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’ن لیگ کے لیے بلوچستان پنجاب سے زیادہ اہم نہیں اس لیے ان کا پورا زور اور پوری توجہ پنجاب پر ہے۔ اگر بلوچستان میں ن لیگ حکومت نہ بھی بنا پائے تو انہیں فرق نہیں پڑے گا جبکہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن اس کے برعکس ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صرف سندھ میں اچھی پوزیشن ہے۔ پنجاب میں اس کے پاس موقع نہیں اس لیے وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ بلوچستان میں کسی نہ کسی طرح حکومت بنا لے۔ ان کی بلوچستان پر بہت توجہ ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی بار بار بلوچستان آئے اور انتخابی جلسے کیے۔
بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے 65 رکنی ایوان میں 33 کی سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے تاہم صوبے میں منتشر سیاسی رجحانات کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور صوبے میں ہمیشہ سے مخلوط حکومتیں بنتی آ رہی ہیں۔
فروری 2008 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں پیپلز پارٹی نے ق لیگ، جے یو آئی، بی این پی (عوامی) سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی۔ تاہم 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کوئی نشست جیت نہیں سکی۔
اسی طرح 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تاہم پانچ سالہ اقتدار کے آخری چند ماہ میں پارٹی تقسیم ہو کر بکھر گئی۔
راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی بنی جس نے 2018 کے انتخابات میں 24 نشستیں حاصل کر کے مخلوط حکومت بنا لی جبکہ 2013 کی بڑی جماعت ن لیگ صوبے سے صرف ایک نشست ہی حاصل کر پائی جبکہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ کوئی نشست نہیں آئی۔
ن لیگ کے اکلوتے ایم پی اے نواب ثنا اللہ زہری بھی بعد میں پارٹی چھوڑ گئے۔ اس طرح دونوں جماعتیں بلوچستان کے سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئیں۔

تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق مرکز میں وہی جماعت حکومت بنا سکتی ہے جسے پنجاب میں اکثریت حاصل ہو۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم 2021 کے آخر میں اس وقت بلوچستان میں صورتحال تبدیل ہونا شروع ہو گئی جب جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ انتخابات قریب آتے ہی اس جماعت میں شامل الیکٹ ایبلز نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا رخ کرنا شروع کر دیا۔
کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سید علی شاہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں 10 سے 15 ایسے الیکٹ ایبلز ہیں جو حکومتیں بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ حالات کے مطابق پارٹیاں اور وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی جماعت جو 10، 12 نشستیں حاصل کرلیتی ہیں وہ  اپنے ساتھ ان الیکٹ ایبلز کو شامل کرا کر آرام سے حکومت بنا لیتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 2018’ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام الیکٹ ایبلز مقامی سطح پر بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی میں چلے گئے۔ یہ الیکٹ ایبلز چار مختلف جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان عوامی پارٹی میں تقسیم ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بلوچستان میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں کا کوئی مؤثر تنظیمی ڈھانچہ اور نہ ہی کوئی اچھا ووٹ بینک ہے سوائے سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے نصیرآباد ڈویژن میں جہاں پیپلز پارٹی کا تھوڑا بہت ووٹ بینک موجود ہے۔ دونوں کا انحصار الیکٹ ایبلز پر ہیں جو اپنے شخصی ووٹ بینک کی بنیاد پر انتخابات جیتے ہیں۔
ان کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا 2018 کے اوائل میں نواب ثنااللہ زہری کی حکومت گرانے میں ہاتھ تھا۔ تب ہی پیپلز پارٹی عبدالقدوس بزنجو، ق لیگ اور ن لیگ چھوڑنے والے الیکٹ ایبلز سے رابطے میں تھی مگر اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی بننے کی وجہ سے آصف زرداری کا بلوچستان میں حکومت بنانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔
سید علی شاہ نے مزید کہا کہ ’اگست 2021 میں سابق وزیراعلیٰ نواب ثنااللہ زہری اور پھر 2022 کے آخر میں چار ارکان اسمبلی ظہور بلیدی، نعمت اللہ زہری، عارف محمد حسنی، سلیم کھوسہ، سابق ارکان اسمبلی سردار فتح محمد حسنی، اصغر رند، عبدالرؤف رند، جمال رئیسانی، آغا شکیل درانی سمیت کئی اہم شخصیات اور الیکٹ ایبلز کی شمولیت کے بعد پیپلز پارٹی کی ہوا چلنا شروع ہو گئی۔ الیکٹ ایبلز بلاول ہاؤس کے سامنے قطاریں بنا کر ملاقات کے منتطر رہتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں پوزیشن مستحکم کرنے کی ان کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد نومبر 2023 میں پنجاب سے باہر پہلا دورہ بلوچستان کا کیا اور سابق وزیراعلیٰ جام کمال سمیت درجن سے زائد الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملا لیا جن میں اکثریت بلوچستان عوامی پارٹی چھوڑنے والوں کی تھی۔
سید علی شاہ کے مطابق آصف زرداری نے بھی ہمت نہیں ہاری اور بلوچستان میں نہ صرف تاریخ میں پہلی بار پارٹی کا یوم تاسیس کا جلسہ کیا بلکہ کئی اہم الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ نصیب اللہ مری، سرفراز ڈومکی، دوران کھوسہ، عبدالقدوس بزنجو اور کئی دیگر اہم لوگ اپنے ساتھ ملا لیے۔
سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ٹکر کا مقابلہ چل رہا ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں 12 سے 14 نشستیں جیت سکتی ہیں تاہم ن لیگ کو اس بات فائدہ حاصل ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی مقابلے سے آؤٹ ہے اور مرکز میں وہی جماعت حکومت بنا سکتی ہے جسے پنجاب میں اکثریت حاصل ہو۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ’بلوچستان میں وہی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہو گی جس کی مرکز میں حکومت بنے اور اس وقت ن لیگ کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ن لیگ اگر بلوچستان میں 12 سے 14 نشستیں حاصل کر لیتی ہیں تو جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان عوامی پارٹی  پہلی فرصت میں ان کی اتحادی بن جائے گی۔‘
تاہم سید علی شاہ کا خیال ہے کہ ’بلوچستان میں ن لیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر ہو گئی ہے اور اس بار بلوچستان میں شاید یہ نئی مثال بھی بن جائے کہ مرکز میں کمزور پوزیشن رکھنے والی جماعت بلوچستان میں حکومت بنا لے۔‘
انہوں نے کہا کہ سرفراز بگٹی جیسے لوگوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت بڑی اہمیت رکھتی ہے یہ لوگ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے۔

دسمبر 2023 میں سابق نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ (فائل فوٹو)

شہزادہ ذوالفقار کے خیال میں نصیرآباد، اوستہ محمد، سبی، ڈیرہ بگٹی، خضدار، سوراب کی صوبائی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدوار صادق عمرانی، بابا غلام رسول عمرانی، فیصل خان جمالی، سردار سرفراز ڈومکی، سرفراز بگٹی، نواب ثنااللہ زہری، نعمت اللہ زہری مضبوط امیدوار ہیں۔ جبکہ کیچ میں چار صوبائی نشستوں میں سے صرف ظہور بلیدی کے جیتنے کے امکانات ہیں۔
ان کی رائے میں ژوب سے ن لیگ کے شیخ جعفر مندوخیل، موسیٰ خیل اور بارکھان سے سردار عبدالرحمان کھیتران، لورالائی سے محمد خان طور اتمانخیل، زیارت ہرنائی سے نور محمد دمڑ، کچھی سے میر عاصم کرد گیلو، جعفرآباد سے راحت فائق جمالی، صحبت پور میں سلیم کھوسہ، لسبیلہ سے جام کمال خان، خاران سے شعیب نوشیروانی، واشک سے مجیب الرحمان محمد حسنی کی بلوچستان اسمبلی کے حلقوں پر اچھی پوزیشن ہے اور وہ اپنی نشستیں جیت سکتے ہیں۔
تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بلوچ اکثریتی علاقوں سے زیادہ نشستیں لے کر آئے گی۔ سندھ سے ملحقہ علاقوں نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور اور اوستہ محمد کے علاقوں میں پانچ میں سے تین نشستیں جیت سکتی ہیں۔ ڈیرہ بگٹی اور سبی میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہے۔
سید علی شاہ کے مطابق انہیں پشتون علاقوں میں ن لیگ کی پوزیشن کمزور لگتی ہے اور ن لیگ میں شامل ہونے والے بڑے بڑے نام شاید اپنی نشستیں بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے ایسے لوگوں پر کام کیا ہے جو انتخابات جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی نشستوں پر این اے 252 پر ن لیگ کے سردار یعقوب ناصر اور پیپلز پارٹی کے  اسرار ترین، این اے 260 پر سردار فتح محمد حسنی اور عبدالقادر بلوچ، این اے 255 پر ن لیگ کے خان محمد جمالی اور پیپلز پارٹی کے چنگیز جمالی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے تاہم ان کے مد مقابل بھی کئی مضبوط امیدوار موجود ہیں۔
اسی طرح این اے 257 حب کم لسبیلہ کم آواران پر ن لیگ کے جام کمال خان، این اے 258 پر ن لیگ کے اسلم بلیدی، این اے 259 کیچ کم گوادر پر ملک شاہ گورگیج  پیپلز پارٹی، این اے 261 سوراب قلات مستونگ کی نشست پر نواب ثنااللہ زہری پیپلز پارٹی کے قابل ذکر امیدوار ہیں۔

شیئر: