Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام انتخابات: بلوچستان میں کس کا پلڑا بھاری، کون سراپا احتجاج؟

2018 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں کوئی سیٹ نہیں تھی (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان اسمبلی کی 51 جنرل نشستوں میں سے اب تک 48 نشستوں کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین 11 نشستوں کے ساتھ  سب سے آگے ہے۔ پاکستان مسلم  لیگ ن 9 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور جمعیت علماء اسلام 8 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
5 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب رہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 4، نیشنل پارٹی 3 اور عوامی نیشنل پارٹی 2 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، جماعت اسلامی اور حق دو تحریک  کو ایک ایک نشست ملی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ہاتھ صرف ایک نشست آئی ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا مکمل صفایا ہو گیا۔
واضح رہے کہ 2018 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی بلوچستان میں کوئی سیٹ نہیں تھی جبکہ مسلم لیگ صرف ایک نشست حاصل کر پائی تھی۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہارنے والی جماعتوں نے دھاندلی اور نتائج کی تبدیلی کے الزامات لگاتے ہوئے احتجاجی دھرنے دے رکھے ہیں۔ صوبے کی کئی شاہراہیں ٹریفک کے لیے بند ہیں۔
غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے ڈیرہ بگٹی سے سرفراز بگٹی، خضدار سے نواب ثناء اللہ زہری، نصیرآباد سے محمد صادق عمرانی، سبی سے سردار سرفراز ڈومکی، کوہلو سے نصیب اللہ مری، کوئٹہ سے علی مدد جتک، صمد خان گورگیج اور عبیداللہ گورگیج، اوستہ محمد سے سردار زادہ فیصل جمالی، کیچ سے ظہور احمد بلیدی اور میر اصغر رند  کامیاب ہوئے۔
پیپلز پارٹی میں شمولیت کرنے والے سابق وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو اپنی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔
جمعیت علماء اسلام کے 10 کامیاب امیدواروں میں نواب محمد اسلم رئیسانی  مستونگ، ظفر اللہ زہری سوراب، سعید احمد لانگو قلات، اصغر علی ترین  اورسید ظفر آغا پشین، یونس عزیز زہری خضدار، غلام دستگیر بادینی  نوشکی، خلیل الرحمان دمڑ زیارت  و ہرنائی، فضل قادر مندوخیل ژوب اور ڈاکٹر محمد نواز کبزئی نے شیرانی کی نشست جیتی ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں 7 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)

جے یو آئی گزشتہ انتخابات میں 8 جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ اس بار پارٹی کو سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی، سابق صوبائی وزرا ء ظفراللہ زہری اور غلام دستگیر بادینی جیسے الیکٹ ایبلز کی شمولیت سے بلوچ علاقوں میں اضافی نشستیں ملی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ہاتھ 9 نشستیں آئی ہیں جن میں لسبیلہ سے جام کمال خان، موسیٰ خیل و بارکھان سے سردار عبدالرحمان کھیتران، خاران سے شعیب احمد نوشیروانی، لورالائی سے محمد خان طور اتمانخیل، دکی سے سردار مسعود لونی، نصیرآباد سے محمد خان لہڑی، صحبت پور سے محمد سلیم کھوسہ، کوئٹہ سے زرک خان مندوخیل اور کیچ سے برکت علی رند شامل ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کو چار نشستیں چاغی، جھل مگسی، حب اور کوئٹہ سے ملی ہیں جن پر بالترتیب  چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، نوابزادہ طارق مگسی، سردار صالح محمد بھوتانی اور سینیٹر پرنس عمر احمد زئی شامل ہیں۔ بی اے پی گزشتہ انتخابات میں آزاد امیدواروں کو ملا کر  19نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی، تاہم اس بار اس کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں رہی۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کیچ، رحمت صالح بلوچ پنجگور اور خیر جان بلوچ آواران سے کامیاب ہوئے ہیں۔ نیشنل پارٹی 2013 میں سات جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئی تھی۔ 2018 میں نیشنل پارٹی کا صفایا ہوگیا تھا، تاہم  اس بار تین نشستوں کے ساتھ واپسی ہوئی ہے۔ نیشنل پارٹی نے بھی انتخابی نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ 
کوئٹہ، پشین اور چمن سے بھی پانچ امیدوار بلوچستان اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آزاد امیدوار بخت محمد کاکڑ پی بی 39 کوئٹہ سے، ولی محمد نورزئی پی بی 41 کوئٹہ سے، لیاقت علی لہڑی پی بی 43 کوئٹہ سے، اسفند یار کاکڑ پی بی 47 پشین سے اور کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی پی بی 51 چمن سے کامیاب ہوئے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے انجینیئر زمرک خان اچکزئی قلعہ عبداللہ کی نشست  جبکہ ملک نعیم احمد بازئی کوئٹہ کے علاقے کچلاک، نوحصار اور اغبرگ کی نشست پی بی 38 سے اپنی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کو چمن کی نشست پر شکست ہوگئی ہے۔ انہوں نے نتائج کے خلاف چمن میں احتجاج بھی کیا۔

پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بری طرح شکست کا شکار ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بی این پی عوامی کے اسد بلوچ پنجگور، جماعت اسلامی کے عبدالمجید بادینی جعفرآباد، حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان گوادر سے کامیاب ہوئے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں 7 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس بار صرف پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اپنے آبائی علاقے خضدار میں پی بی 20 وڈھ کی نشست برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بری طرح شکست کا شکار ہوئی ہے۔ پشتونخوا میپ 2018 میں صرف ایک نشست پر کامیاب ہوئی تھی۔ 2013 میں پشتونخوا میپ کو 10جنرل نشستوں پر کامیابی ملی تھی، تاہم 2024 میں بلوچستان اسمبلی سے پشتونخوا میپ کا مکمل صفایا ہوگیا ہے۔
پشتونخوا میپ کی پشین کی دو، چمن، قلعہ عبداللہ اور کوئٹہ کی ایک ایک نشست پر دوڑ میں شامل تھی۔ پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں اور کہا ہے کہ امیدواروں سے بیس بیس کروڑ روپے لے کر انہیں دھاندلی کے ذریعے جتوایا گیا۔

شیئر: