پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس واضح اکثریت نہیں آئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اتحادی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں اور انہوں نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
انتخابی نتائج مسترد، جے یو آئی کا اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلانNode ID: 836486
-
’نئی حکومت گذشتہ حکومت کا ہی تسلسل مگر کمزور ہوگی‘Node ID: 836526
اسی طرح پنجاب میں انہوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کو وزیراعلٰی کا امیدوار نامزد کر دیا ہے۔ موجودہ صورت حال میں نواز شریف خود قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے تو موجود ہوں گے تاہم عملی طور پر معاملات اب شہباز شریف چلا رہے ہوں گے۔
ان انتخابات میں ایک اہم بات یہ بھی ہوئی ہے کہ نواز شریف مانسہرہ سے اپنی ایک سیٹ ہار گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق وہ لاہور سے اپنی آبائی سیٹ جیتے ہیں تاہم ان کی مخالف سیاسی جماعت نے ان کی جیت کو چیلنج کر دیا ہے۔ اور ان کی جیت پر مقامی میڈیا میں بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔
80 کی دہائی میں نواز شریف نے جب اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا تو اوکاڑہ سے وہ قومی اسمبلی کی سیٹ ہارے تھے۔ اسی طرح ملتان سے بھی یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں بھی انہیں شکست ہوئی تھی، البتہ 1997 کی اسمبلی میں جب انہوں نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تو اس کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ امیدوار کے طور پر سیٹ جیتنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
سوال اس وقت یہ ہے کہ ان عام انتخابات کے بعد نواز شریف کیا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ سینیئر تجزیہ کار اور دانشور وجاہت مسعود اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم جس نواز شریف کو جانتے ہیں، ان کی سیاسی میراث ہے کہ انہوں نے پنجاب کی شہری مڈل کلاس کو 90 کی دہائی میں سیاست میں سرگرم کیا۔ اس کو میں اربن شٹر کلاس کہتا ہوں کیونکہ یہ لوگ کاروباری لوگ تھے اور نواز شریف نے ان کے ساتھ ایک گہرا سیاسی رشتہ استوار کیا تھا اور اگلی تین دہائیوں میں اس کلاس نے کھل کر نواز شریف کو طاقت بخشی لیکن اب وہ کلاس بوڑھی ہو گئی ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/43881/2024/afp_20240118_34fr6dq_v2_preview_topshotpakistanpoliticsvote.jpg)
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ انتخابات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب اس کلاس کی اگلی نسل میدان میں آ چکی ہے اور نواز شریف بدقسمتی سے اس کے ساتھ وہ رشتہ استوار نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے میں کہوں گا کہ نواز شریف کا طرزِ سیاست اب دم توڑ رہا ہے۔ اب پرانے طریقہ کار اور طرز سیاست سے شاید وہ اپنی سیاست کو آگے نہ بڑھا سکیں۔‘
ان انتخابات سے پہلے بھی سیاسی مبصرین یہ باتیں کرتے دکھائی دے رہے تھے کہ موجود نسل جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سے جڑی ہوئی ہے اور عمران خان نے انہی ’ہتھیاروں‘ سے نوجوان نسل سے رابطہ قائم رکھا ہے جو الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو گا۔
پھر یہی دیکھنے کو ملا کہ ان انتخابات میں ان کی جماعت کسی نشان کے بغیر الیکشن میں گئی اور آزاد حیثیت سے جیتنے والے ان کے حمایت یافتہ اراکین سب سے زیادہ تعداد میں قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں۔
تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ کسی سیاست دان کی سیاست اس وقت ختم ہوتی ہے جو دنیا سے کوچ کر جائے یا پھر وہ خود سیاست چھوڑ جائے۔
’میرے پاس یہ کہنے کی کئی وجوہات ہیں کہ نواز شریف اب بھی پاکستان کی سیاست میں اتنے اہم ہیں جتنے وہ پہلے تھے۔ ان کے ساتھ انتخابات میں جو کچھ ہوا اس بات کا انہیں علم تھا کیونکہ ان کی جماعت نے عمران خان کا بوجھ اپنے سر لیا اور اس بات کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا ہے۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’نواز شریف اس لیے بھی سیاست میں رہیں گے کیونکہ موجودہ بندوبست مجھے زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آ رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے، کوئی اسے مانے یہ نہ مانے لیکن جس طرح پیپلز پارٹی نے آئینی عہدے پاس رکھ کر حکومت کی بھاری ذمہ داری ن لیگ کے کندھوں پر رکھ دی ہے، یہ غیرفطری معاملہ ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/43881/2024/afp_20230515_33f48ul_v2_preview_pakistanpoliticsunrestcourts_0.jpg)