Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں جعلی بیلٹ پیپرز کی چھپائی: کیا صحافی استعمال ہو گئے؟

اس ویڈیو کے تمام کردار اب اس مکمل ذمہ داری لینے سے اجتناب برتتے نظر آ رہے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ روز سے ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو صحافی ایک پرنٹنگ پریس میں موجود ہیں جہاں پر الیکشن 2024 میں استعمال ہونے بیلٹ پیپرز کی طرز کے سینکڑوں پیپرز زمین پر بکھرے پڑے ہیں۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رائے ثاقب کھرل نامی صحافی اور یوٹیوبر ان بیلٹ پیپرز کو کیمرے پر تفصیل سے دکھا رہے ہیں۔ چھ منٹ سے زائد دورانیے کی اس ویڈیو میں وہ بتاتے ہیں کہ یہ بیلٹ پیپرز مانسہرہ کے اس حلقے کے ہیں جہاں نواز شریف امیدوار تھے۔ 44 سیکنڈ کی ایک دوسری ویڈیو میں ایک دوسرے صحافی عمران ارشد بھی دیکھے جا سکتے ہیں، وہ بھی کچھ ایسا ہی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک پرائیوٹ پرنٹنگ پریس میں الیکشن کے بیلٹ پیپرز کی چھپائی کیوں ہو رہی ہے۔
اس ویڈیو کو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلکہ عمران خان کے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے بھی شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ الیکشن کو 10 روز گزر چکے ہیں اور دھاندلی ابھی بھی جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس ویڈیو کو تحقیقاتی صحافت کی تاریخی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
تاہم دوسری طرف مسلم لیگ ن کی جانب سے اس کو ایک پلانٹڈ سٹوری کہا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر ثاقب کھرل کو گرفتار کرنے کے مطالبے پر مبنی ٹرینڈ بھی ن لیگ کے حامیوں کی طرف سے چلایا جا رہا ہے جو ان پر انتخابی عمل کو متنازع بنانے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
اصل صورت حال ہے کیا؟
دونوں صحافی جس پرنٹنگ پریس کا ذکر کر رہے ہیں وہ لاہور کے علاقے لکشمی چوک میں رائل پارک میں کوزی حلیم والی گلی میں بائیں طرف ایک پلازے کی پہلی منزل پر واقع ہے۔
پریس کے باہر کسی کا نام درج نہیں البتہ اندر صرف ایک پرنٹنگ مشین پڑی ہوئی ہے جو کہ ہائیڈل برگ جی ٹی او کے نام سے جانی جاتی ہے اور پرنٹنگ لائن میں سستی ترین مشین سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ ایک کٹر مشین ہے جس سے پیپر کاٹا جاتا ہے۔

اس ویڈیو کو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس حتی کے عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے بھی شیئر کیا گیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

اس پلازے میں اور بھی درجنوں پرنٹنگ کی دکانیں ہیں۔ وہاں موجود محمد خان نامی شخص نے بتایا کہ ’یہ دکان اعجاز نامی شخص کی ہے اور وہ لاہور کے علاقے ساندہ کے رہائشی ہیں۔ ان کے پاس تین سے چار لوگوں کا سٹاف ہے اور یہ کوئی بہت مشہور یا بڑا کام کرنے والا پریس نہیں ہے۔ ان کو اس دکان میں شفٹ ہوئے ایک سال ہوا ہے۔ 15 فروری کو جب یہاں دو صحافی آئے اور اردگرد کسی کو کچھ علم نہیں تھا جب وہ اونچی اونچی کیمرے پر بول رہے تھے تو اردگرد لوگ اکھٹے ہو گئے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ یہ ویڈیو بنا رہے تھے تو ایک دو ملازم اس دکان کے اندر موجود تھے، مالک خود نہیں تھا، ملازم بھی وہاں سے چلے گئے۔ جب یہ صحافی اپنا کام کر چکے تو ایک شخص نے بیلٹ پیپرز کو دو بڑے تھیلوں میں ڈالا اور وہ بھی صحافیوں کے بعد غائب ہو گیا۔‘
’لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ اس نے قریبی ڈمپنگ سٹیشن پر وہ تھیلے پھینک دیے تھے۔ آج صبح سے پولیس بھی دو مرتبہ یہاں چکر لگا چکی ہے لیکن انہیں بیلٹ پیپر یہاں سے نہیں ملے۔‘
پرنٹنگ کی اس دکان پر پہنچنے والے ایک صحافی ثاقب کھرل ہیں جن کا تعلق ’ہم نیوز‘ سے ہے۔
ان سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا موبائل فون مسلسل بند جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ جانے والے دوسرے صحافی عمران ارشد کا تعلق ’نیو نیوز‘ سے ہے۔
عمران ارشد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے اور ثاقب کو ٹپ ملی تھی کہ وہاں جعلی بیلٹ پیپر چھپ رہے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے بیلٹ پیپر دیکھے اور اس کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ ایک ویڈیو چھ منٹ اور ایک 44 سیکنڈ کی بنی۔‘
’وہاں پر لوگ کافی اکھٹے ہو چکے تھے، ہم نے ایک شخص پر بھروسہ کیا اور اس کو اپنے دونوں فون دیے اوراس کا فون ہم نے رکھ لیا۔ کیونکہ ہمیں شک تھا کہ ہمارے فون نہ ہم سے چھین لیے جائیں۔‘

دونوں صحافی کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو انہوں نے سرے سے جاری ہی نہیں کی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہم ابھی اس سٹوری پر کام کر رہے تھے، ابھی پوری طرح سے حقائق ہم پر آشکار نہیں ہوئے تھے لیکن جس شخص کو ہم نے فون دیے تھے، انہوں نے ویڈیو وائرل کر دی۔‘
دوسری طرف ہم نیوز ہی کے ایک اور اینکر منصور علی خان نے پیر کی دوپہر اپنے ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا کہ ان کی اپنے کولیگ ثاقب کھرل سے تفصیلی بات ہوئی ہے اور ان کا موقف ہے کہ جس سورس نے ان کو اس پرنٹنگ پریس کا بتایا تھا، وہ اس وقت موقعے پر بھی موجود تھا اور اس نے یہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں صحافیوں نے اپنے سوشل میڈیا پر اور نہ ہی اپنے چینلز پر اس خبر کو چلایا۔ تاہم ان دونوں صحافیوں کا دعویٰ  ہے کہ انہوں نے اپنے اداروں کو ویڈیو مواد دیا لیکن ایڈیٹوریل بورڈز نے اس پر مزید کام کرنے کا کہا جس کے بعد یہ ویڈیو ’لیک‘ کر دی گئی۔

کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں

پاکستان کے سیاسی منظرنامے اور سوشل میڈیا پر بھونچال لانے والی اس ویڈیو کے تمام کردار اب اس مکمل ذمہ داری لینے سے اجتناب برتتے نظر آ رہے ہیں۔
دونوں صحافی کہہ رہے ہیں کہ ویڈیو انہوں نے سرے سے جاری ہی نہیں کی۔ جبکہ مسلم لیگ ن کی پنجاب کی ترجمان اعظمہ بخاری کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک جعلی واردات ہے اور الیکشن کے عمل کر سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں سے ایک ہے۔ یہ سب پلانٹڈ ہے اور اس سے الیکشن کی ساکھ متاثر کی گئی۔ اس کا قانونی جواب دیا جانا چاہیے۔ جس حلقے کے بیلٹ پیپر چھاپے جا رہے تھے، اس کا تو نوٹیفیکشن بھی جاری ہو چکا ہے۔‘
ہم نیوز کے ڈائریکٹر نیوز ریحان احمد نے بتایا کہ ’ادارے کے ڈائریکٹر نیوز یا اسائنمنٹ ڈیسک سے اس خبر کے حوالے سے متعلقہ صحافی نے کچھ ڈسکس نہیں کیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اکثر صحافی اپنے ذاتی یو ٹیوب چینل یا سوشل میڈیا کے لیے مختلف ویڈیوز بناتے ہیں جن کا ان کے ادارے یا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
 ہم نیوز کی انتظامیہ کے مطابق اس طرح کے سٹنگ آپریشن یا ویڈیوز ان کی ادارتی پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔

ہم نیوز کی انتظامیہ کے مطابق اس طرح کے سٹنگ آپریشن ان کی ادارتی پالیسی کے مطابق نہیں (فوٹو: اردو نیوز)

دوسری طرف نیو نیوز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیوز نصراللہ ملک نے بتایا کہ ’ثاقب اور عمران دونوں میرے پاس آئے تھے اور مجھے کہا کہ یہ ایکسکلوسیو ویڈیو ہے جس کو ٹی وی پر نشر کیا جائے۔‘
’تاہم جب میں نے ادارتی حوالے سے سوال اٹھائے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ بیلٹ پیپر ن لیگ چھاپ رہی تھی؟ یا اس بات کا کوئی ثبوت کہ آپ کو ٹریپ نہیں کیا گیا؟ اس خبر نما ویڈیو کے بنیادی اجزا ہی پورے نہیں ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ثاقب اس بات پر ایک حد قائل ہو چکے تھے کہ خبر پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاہم وہ پھر بھی اصرار کر رہے تھے کہ میرا ٹی وی وہ ویڈیو نشر کرے۔‘
’پھر میں نے کہا کہ آپ ہم نیوز پر وہ ویڈیو کیوں نہیں چلاتے؟ یا اپنے یو ٹیوب پر چلائیں، اس کے بعد پھر ہم وہاں سے اٹھا لیں گے۔ جس کے بعد وہ یہاں سے چلے گئے تو تھوڑی دیر بعد تحریک انصاف کے واٹس ایپ گروپوں میں یہ ویڈیو دھڑا دھڑ شیئر ہونے لگی۔‘
نصراللہ ملک نے کہا  ’میرا خیال ہے یہ ایک مشکوک ویڈیو ہے جس میں کسی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔‘

شیئر: