Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں: سپریم کورٹ

بیان کے مطابق اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس موضوع پر پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر جاری عدالتی فیصلے سے متعلق بحث کے بعد ایک بیان جاری کیا ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔
’ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم (’مسلمان‘ کی تعریف) سے انحراف کیا ہے۔ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ’مذہب کے خلاف جرائم‘ کے متعلق مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے۔ حالیہ کیس میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ مقدمے کی ایف آئی آر میں مذکور الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے، تو ان پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932 کی دفعہ 5 کا اطلاق ہوتا ہے۔
’دفعات کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ملزم پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزار چکا تھا، اس لیے اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں اور اسلامی احکام بھلا دیے جاتے ہیں۔‘
بیان کے مطابق فیصلے میں غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ان میں واضح ہے کہ یہ حقوق ’قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع‘ ہی دستیاب ہوں گے۔ آئین میں ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اسے بیان کرنے کا حق ہو گا۔
’آئین کے مطابق ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال اور ان کے انتظام کا حق ہو گا۔‘
ترجمان سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس موضوع پر پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے۔ جس سے موجودہ فیصلے میں کوئی انحراف نہیں کیا گیا۔
’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول یا کسی آئینی یا قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، تو اس کی تصحیح واصلاح اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ بیان میں کہا کہ ’عدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جا سکتی ہے لیکن نظرثانی کا آئینی راستہ اختیار کیے بغیر تنقید کے نام پر، یا اس کی آڑ میں، عدلیہ یا ججوں کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے۔‘

شیئر: