Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات، نئے مطالبات کیا ہیں؟

آئی ایم ایف نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنا کر ٹیکس سسٹم میں لانے کا مطالبہ کیا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے وزارت خزانہ کے حکام اور آئی ایم ایف وفد کے درمیان پہلے دن کے مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں۔
جمعرات کو وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر کی قیادت میں وفد نے وزارت خزانہ کا دورہ کیا۔
آئی ایم ایف وفد کی وزارت خزانہ آمد پر اُن کا خیر مقدم کیا گیا۔ وفد نے وزیر خزانہ کی سربراہی میں معاشی ٹیم سے مذاکرات کیے۔ نومنتخب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب رمدے نے آئی ایم ایف وفد کو ملکی معاشی صورت حال سے آگاہ کیا۔
تکنیکی سطح کے مذاکرات کے پہلے روز کے اختتام پر وزارت خزانہ کے اعلٰی حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ آئی ایم ایف نے فرٹیلائزر پلانٹس کو سستی گیس کی فراہمی پر ’تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔
’آئی ایم ایف جائزہ مشن نے فرٹیلائزر پلانٹس کو سستی گیس کی فراہمی کو جلد ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے عالمی مارکیٹ اور پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مطابقت نہ ہونے پر بھی تشویش ظاہر کی۔‘
وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں کموڈیٹی پرائس مستحکم اور پاکستان میں نرخ بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔
آئی ایم ایف کے وفد نے وزیر توانائی، ایف بی آر اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وزارت توانائی حکام کی جانب سے جائزہ مشن کو گردشی قرضہ، ٹیرف آؤٹ لُک اور کاسٹ سائیڈ ریفارمز پر بریفنگ دی گئی۔
آئی ایم ایف جائزہ مشن اور ایف بی آر حکام کی ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور ٹیکس پالیسی پر بات چیت ہوئی۔ آئی ایم ایف کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد، آؤٹ لُک اور ڈویلپمنٹ پر بھی بریفنگ دی گئی۔
حکام وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف وفد کو ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹیکسیشن اور ریٹیلرز کے لیے ٹیکس میکنزم سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف حکام نے حکومت سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر، مینوفیکچرر شعبے اور ریٹیلرز کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے جائزہ مشن نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنا کر ٹیکس سسٹم میں لانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر کی قیادت میں وفد نے وزارت خزانہ کا دورہ کیا (فوٹو: وزارت خزانہ)

خیال رہے کہ آئی ایم ایف جائزہ مشن گذشتہ رات پاکستان پہنچا تھا۔
پاکستان کی وزارت خزانہ کے مطابق سٹینڈبائی ارینجمنٹ کے تحت 18 مارچ تک مذاکرات جاری رہیں گے۔ آخری اقتصادی جائزے کی کامیاب تکمیل پر پاکستان کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر ملیں گے۔
پاکستان کو اپنی مالی ضرویات پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ اور ان اداروں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کا نام ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔
پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ جون 2023 میں سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ طے پایا تھا جس کی مدت 12 اپریل 2024 یعنی اگلے ماہ ختم ہو رہی ہے۔
اس معاہدے کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر نو ماہ کے دوران تین ارب ڈالر کی اقساط ملنا تھیں۔ تین ارب ڈالر کے پروگرام میں سے پاکستان کو ابھی آخری ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی قسط ملنا باقی ہے۔

شیئر: