Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی ایجنڈا اور اپوزیشن کے احتجاج کا بدلا ہوا انداز

عمر ایوب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ آرڈیننس پاکستان کو بیچنے کے لیے ہیں: فائل فوٹو
پاکستان کی 16ویں قومی اسمبلی کے پارلیمانی بزنس کے آغاز پر ہی حکومت کو سات آرڈینینسز پیش کرنے پر نہ صرف اپوزیشن کے احتجاج بلکہ اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے اختلاف کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
 اجلاس میں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔
قومی اسمبلی کے پہلے سیشن کے آخری دن کا اجلاس جمعے کو سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے لیے آٹھ نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا جس میں توجہ دلاؤ نوٹسز قانون سازی اور سات آرڈیننسز پیش کرنا شامل تھے۔
اجلاس کے دوران اپوزیشن نے اپنا طرز احتجاج تبدیل کرتے ہوئے باضابطہ طور پر کارروائی کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے آرڈیننسز کے ذریعے قانون سازی پر احتجاج کیا تو اپوزیشن ارکان نے بھرپور ان کا ساتھ دیا۔
اپوزیشن نے سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرنے اور مسلسل نعرے بازی کے بجائے ایجنڈے پر موجود بزنس پر اپنا نقطۂ نظر دیتے ہوئے اس سے اختلاف کا اظہار کیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سات آرڈینینسز کی مدت میں توسیع کی قرارداد پیش کی گئی تو اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی۔
سپیکر نے قواعد کے مطابق زبانی ووٹنگ کرائی تو اپوزیشن نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے زبانی ووٹنگ کو چینلج کیا۔ جس پر سپیکر نے گنتی کرنے کی ہدایت کی۔ قرارداد کی حمایت میں 130 اور مخالفت میں 63 ووٹ آئے۔
سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے اس دوران نشستوں پر کھڑے ہو کر ایوان میں احتجاج کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، اپوزیشن نے اجلاس کی کارروائی کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
اس کے بعد سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے آرڈینینسز پیش کیے گئے تو اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا۔ اس دوران صرف ایک رکن سپیکر ڈائس کے سامنے آیا اور ایجنڈے کی کاپی پھاڑ دی لیکن اگلے ہی لمحے اپوزیشن رہنماؤں نے اسے واپس اپنی نشست پر بھیج دیا۔
اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ آرڈیننس پاکستان کو بیچنے کے لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یکدم آرڈیننس پر آرڈیننس آ رہے ہیں۔ ہم ان آرڈیننس کو دیکھ نہیں سکتے، یہ کیا ہیں، کیا پتا آدھا ملک ہی بیچ دیں۔ عجلت میں قانون سازی نہ کریں۔
انھوں نے حکومتی رہنماؤں کے  نام لے کر چیلنج کیا کہ انھوں نے بھی آرڈینینس نہیں پڑھے اور نہ ہی کسی کمیٹی نے ان پر بحث کی ہے۔ جس پر سپیکر ایاز صادق نے واضح کیا کہ یہ آرڈینینس کمیٹیوں میں جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے کہا کہ نوید قمر صاحب آپ نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ رولز کے مطابق چلیں گے، یہ آج کیا ہو رہا ہے؟ جس طرح بل لائے جا رہے ہیں ہم مذمت کرتے ہیں، اپوزیشن لیڈر کو وقت دیا جائے۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف جب اپوزیشن لیڈر تھے تو دس، دس گھنٹے تقریر کرتے تھے، رولز کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے نوید قمر کا کہنا تھا کہ آپ کم از کم ہمارا نقطہ نظر تو سن لیں، جس طریقے سے یہ آرڈیننسز پیش کئے جا رہے ہیں، ہمارے بھی اس پر سنگین تحفظات ہیں اور ہمیں کچھ آرڈیننسز کے مواد پر بھی تحفظات ہیں۔ ہم رولز کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے رکن خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن سے اتفاق کرتا ہوں کہ آرڈیننس سے حکومت نہیں چلتی۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ پچھلے تین ادوار میں سب سے زیادہ آرڈیننس کس کے دور میں آئے۔
یہ پہلا اجلاس تھا جس میں اپوزیشن نے ایجنڈے کی کارروائی کا حصہ بنتے ہوئے اپنا نکتہ نظر پیش کیا اور احتجاج بھی کیا۔ لیکن احتجاج کا انداز بدلا ہوا نظر آیا۔
اس حوالے سے نامزد قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اپنا احتجاج بھی جاری رکھیں گے اور ایجنڈے کا حصہ بنتے ہوئے اپنا نکتہ نظر بھی دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ آج بھی ہم نے اس سٹریٹجی پر عمل کیا اور احتجاج کے ساتھ ساتھ ان کو آئینہ بھی دکھایا اور آئندہ بھی اس پر عمل پیرا رہیں گے۔
قومی اسمبلی میں غزہ میں اسرائیلی بربریت کی مذمت کرتے ہوئے قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ شازیہ مری کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے متن کے مطابق ایوان فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے۔
قرارداد میں حکومت سے غزہ میں سیز فائر کے لئے عالمی برادری پر زور دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بعدازاں قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
 

شیئر: