سینیٹ کا چہرہ سمجھے جانے والے وہ ارکان جو انتخابی دوڑ سے باہر ہوئے
سینیٹ کا چہرہ سمجھے جانے والے وہ ارکان جو انتخابی دوڑ سے باہر ہوئے
منگل 19 مارچ 2024 5:45
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
سینیٹر میاں رضا ربانی 27 سال کے طویل ترین عرصے تک سینیٹر رہنے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں (فوٹو: اے پی پی)
پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ کا کئی دہائیوں تک حصہ رہنے والے کئی سینیٹرز کو ان کی جماعتوں نے اگلی بار کے لیے ٹکٹ نہیں دیے جس کے باعث اس ایوان کا چہرہ سمجھے جانے والے کئی ارکان یہاں نظر نہیں آئیں گے اور ان کی جگہ کئی نئے چہرے منتخب ہوکر ایوان میں پہنچیں گے۔
سینیٹ کی پنجاب اور سندھ کی 12، 12، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی 11،11 نشستوں پر انتخابات دو اپریل کو ہوں گے جبکہ اسلام آباد سے سینیٹ کی دو نشستوں پر بھی انتخابات ہوں گے۔
اس مقصد کے لیے کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے ہیں۔ اب تک جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کے مطابق پنجاب میں سینیٹ کی 12 نشستوں پر کل 28 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
سات جنرل نشستوں پر 17 امیدوار نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر کُل پانچ امیدواروں نے کاعذات جمع کرائے ہیں۔
ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر تین امیدواروں میں مقابلہ ہے۔ سندھ کی 12 نشستوں پر پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اور آزاد سمیت 33 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
جنرل نشستوں پر 20، خواتین اور ٹیکنوکریٹ پر پانچ، پانچ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اقلیت کی نشست پر تین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی سات جنرل نشستوں کے لیے کُل 25 امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں کے لیے 10 امیداواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ خواتین کی دو نشستوں کے لیے سات امیدواروں نے کاغذات جمع کیے ہیں۔
بلوچستان سے 11 نشستوں کے لیے 36 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی کے مطابق جہاں کئی ایک چہرے دوبارہ منتخب ہو کر ایوان بالا کا حصہ بنیں گے وہیں کئی پرانے چہرے بلکہ سینیئر سیاست دان اور کئی دہائیوں تک ایوان بالا کا حصہ رہنے والے اب کی بار واپس لوٹ کر نہیں آ سکیں گے۔
رضا ربانی
پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن اور مرکزی رہنما میاں رضا ربانی 27 سال تک سینیٹ آف پاکستان کا رکن رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کی جماعت نے اگلے چھ سال کے انھیں ٹکٹ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ وسیم سجاد کا ساتویں مرتبہ منتخب ہونے کا ریکارڈ برابر نہیں کر سکے۔
تاہم 27 سال کے طویل ترین عرصے تک سینیٹر رہنے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سینیٹر وسیم سجاد 24 سال تک سینیٹر رہے تھے۔
سینیٹر میاں رضا ربانی پہلی مرتبہ 1994 میں سینیٹر بن کر آئے اور پھر اسلام آباد کے باسی ہی بن کر رہ گئے۔ وہ ایوان بالا میں کسی بھی صوبے سے ایک ہی پارٹی کے ٹکٹ پر سب سے زیادہ اور مسلسل منتخب ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ رہنے کے ساتھ وفاقی وزیر بھی رہے ہیں۔ وہ 18ویں اور 19ویں آئینی ترامیم کے لیے پارلیمان کی مشترکہ کمیٹی برائے آئینی اصلاحات اور آغاز حقوق بلوچستان پیکیج کمیٹی کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔
مشاہد حسین سید
1997، 2003، 2012 اور 2018 میں سینیٹر منتخب ہونے والے مشاہد حسین سید دو مرتبہ مسلم لیگ ن اور دو مرتبہ ق لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔
وہ مجموعی طور 21 سال سینیٹ کا حصہ رہے۔
اس عرصے کے دوران مشاہد حسین سید وفاقی وزیر رہنے کے علاوہ دفاع، خارجہ امور کی قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین رہنے کے ساتھ پی اے سی، سی پیک اور دیگر کئی اہم کمیٹیوں فعال رکن رہے۔
ان کی جماعت مسلم لیگ ن نے انھیں اگلی باری کے لیے ٹکٹ جاری نہیں کیا ہے۔
ڈاکٹر فروغ نسیم
فروغ نسیم اگرچہ 2012 سے 2024 تک مسلسل 12 سال کے لیے سینیٹر رہے لیکن ان کی سینیٹ میں موجودگی کے نقوش ان مٹ ہیں۔
وہ عمران خان کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے اتحادی ہونے کی وجہ سے وفاقی کابینہ کا رکن بنے اور قانون کا قلمدان سنبھالا۔
ان کے بارے میں ایم کیو ایم کی قیادت سے جب بھی سوال کیا جاتا تھا، ان کی جانب سے جواب ملتا تھا کہ فروغ نسیم ایم کیو ایم کے سینیٹر نہیں ہیں بلکہ وہ مقتدرہ کے کوٹے پر منتخب ہوئے ہیں۔
گزشتہ دور میں عدالت میں ریاست کی نمائندگی کرنے کے لیے انھوں نے کئی بار وزارت سے استعفیٰ دیا۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حکومتی اتحاد سے علیحدگی اور پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کے بعد سے فروغ نسیم منظر عام سے ہٹ گئے تھے۔
12 مارچ کو ان کی مدت مکمل ہونے کے بعد وہ ریٹائر ہوئے ہیں اور نئی مدت کے لیے ان کے کاغذات نامزدگی بھی جمع نہیں ہوئے۔
ان کے علاوہ سینیٹر مولا بخش چانڈیو، سینیٹر مظفر حسین شاہ، سینیٹر مشتاق احمد اور کئی دیگر بھی بوجوہ ایوان میں واپس نہیں آ سکیں گے۔
کس کس نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں؟
پنجاب میں سینیٹ جنرل نشستوں پر محسن نقوی، محمد اورنگزیب، اعجاز منہاس، طلال چوہدری، ولید اقبال، وسیم شہزاد، احد چیمہ نے جنرل نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
پرویز رشید، حامد خان بھی جنرل نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کروانے والوں میں شامل ہیں۔
خواتین کی دونشستوں پر صنم جاوید، فائزہ احمد، انوشے رحمان نے کاغذات جمع کرائے ہیں جب کہ ٹیکنوکریٹس کی دو نشستوں پر تین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور مصطفیٰ رمدے بھی شامل ہیں۔
اقلیت کی ایک نشست پر طارق جاوید اور آصف عاشق نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
سندھ سے پیپلزپارٹی کے اشرف علی جتوئی، سید مسرور احسن، سید کاظم علی شاہ امیدوار ہیں، پیپلزپارٹی کے ندیم احمد بھٹو، احمد نایاب، دوست علی جیسر جنرل نشست پر امیدوار ہیں۔
ایم کیو ایم کے محمد ابوبکر، رؤف صدیقی، شبیرقائم خانی، عامر چشتی اور ہمایوں سلطان امیدوار ہیں۔ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے بطور آزاد امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
نجیب ہارون، عبدالوہاب، علی طاہر، راجہ جاکھرانی شہباز ظہیر، نگہت مرزا بھی امیدوار ہیں۔
ٹیکنوکریٹ کی نشستوں پر پیپلز پارٹی کے بیرسٹر ضمیر گھمرو، سرمدعلی، کریم احمد خواجہ امیدوار ہیں۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں میں منظور بھٹہ اور عبدالوہاب نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔
خواتین کی دو مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کی قرة العین، روبینہ خائم خانی، مسرت نظیر نیازی امیدوار ہیں۔ ایم کیوایم کی یاسمین دادا بائی، سبینہ پروین اور آزاد امیدوار مہ جبین ریاض امیدوار ہیں۔
اقلیتوں کی سینیٹ کی ایک نشست پر پیپلز پارٹی کے پونجو مل بھیل، سریندار داس، آزاد امیدوار بھگوان داس ہیں۔
خیبرپختونخوا سے جنرل نشستوں کے لیے عرفان سلیم، محمد طلحہ محمود، دلاور خان، فیصل جاوید، مرزا محمد آفریدی، اظہر قاضی مشوانی، نیاز احمد، وقاص اورکزئی، فضل حنان، اصف اقبال اور اعظم خان سواتی نے کاغذات جمع کیے ہیں۔
ان کے علاوہ مراد سعید، فیض الرحمان، خرم ذیشان، عطاءالحق، مسعود الرحمان، شفقت آیاز، آصف رفیق، محمود خان، نور الحق قادری، محمد نسیم، سجاد حسین، تاج محمد آفریدی، احمد مصطفی، اور فدا محمد نے کاغذات جمع کرائے ہیں۔
ٹیکنوکریٹ کی نشستوں کے لیے اعظم خان سواتی، قاضی محمد انور ایڈوکیٹ، وقار احمد قاضی، ڈاکٹر حماد محمود چیمہ، خالد مسعود، فضل حنان، دلاور خان، قیصر خان، نور الحق قادری اور سید ارشاد حسین کاغذات جمع کیے ہیں۔
خواتین کی دو نشستوں کے لیے مہوش علی خان، عائشہ بانو، روبینہ ناز، روبینہ خالد، شازیہ، سیدہ طاہرہ بخاری اور حامدہ شاہد شامل ہیں۔